نیو میٹرو سٹی گوجرخان کمشنرراولپنڈی آڑے آگئے

قارئین کرام! پنجاب میں جس دن سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے اس دن سے بیوروکریسی کسی بے لگام گھوڑے کی شکل اختیار کر چکی ہے، ہر ادارہ کرپشن کا شکار تو پہلے ہی تھا لیکن موجودہ حکومت میں کرپشن اپنی حدوں کو چھونے لگ گئی، دیدہ دلیری کیساتھ ہر ناجائز کام ہوتاہے اور ان کو پوچھنے کی سکت کسی ایم پی اے میں بھی نہیں، پنجاب میں ہاؤسنگ اتھارٹی، ہاوسنگ ایکٹ، ڈویلپمنٹ کے قوانین کہیں نظر نہیں آتے، نہ ان پہ عملدرآمد نظرآتاہے، ضلع راولپنڈی کی بات کی جائے تو یہاں پہ درجنوں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں جو اپنا کام دھڑلے سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی صرف اخبارات میں بیانات اور اشتہارات کی حد تک محدود ہے، کسی کو بھی غیر قانونی کام کرنے سے روکنے کی ان میں سکت نہیں ہے، چند ہزار کی کنال جگہ لے کر فی مرلہ لاکھوں روپے کی فروخت ہوتی ہے اور ان سوسائٹیز کی قانونی حیثیت بھی کوئی نہیں۔
کچھ ایسی صورتحال گوجرخان میں حال ہی میں لانچ ہونے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی ہے، نیو میٹروسٹی کے نام سے لانچ ہونے والی ہاؤسنگ سوسائٹی کیخلاف راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے محض دکھاوے کی حد تک ایکشن اس وقت لیا جب اس کی فائلز کی دھڑا دھڑ فروخت جاری تھی بلکہ یوں کہنا بھی مناسب ہوگا جب فائلز 85% فروخت ہوچکی تھیں، راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، کمشنر راولپنڈی ڈویژن، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی ناک کے نیچے یہاں پر ہاؤسنگ سوسائٹی کیلئے زرعی رقبہ خریدا گیا، دیہہ شاملات پہ مبینہ قبضہ کیا گیا، اربوں روپے کا ریونیو حکومت پنجاب کے اکاؤنٹ میں گیا، کروڑوں،اربوں روپے سودے کرانے والوں نے کما لئے، محکمہ مال سے متعلقہ افسران و ملازمین کروڑ پتی بن گئے، مگر انتظامیہ سوئی رہی، آخر کیوں؟؟؟
جب آر ڈی اے کی آنکھ کھلی اس وقت موقع پر مشینری چل رہی تھی، چند دن بعد اس کی لانچنگ تقریب ہورہی تھی، کیا آر ڈی اے کی آنکھ اپنا مال پانی سیدھا کرنے کیلئے کھلی تھی؟؟ ظلم بالائے ظلم یہ کہ اخبارات میں ہزاروں لاکھوں کے اشتہارات دیئے گئے، آر ڈی اے کی ویب سائٹ اور فیس بک پیج پہ سوسائٹی کیخلاف منظم مہم چلائی گئی اور بعد ازاں آہستہ آہستہ پیج سے ساری پوسٹس ڈیلیٹ کر دی گئیں۔ یعنی مال ہضم، معاملہ ختم۔ یقینا مال ملا ہوگا تبھی یہ ساری کارروائی ختم کی گئی۔
اس کے بعد ہاؤسنگ سوسائٹی انتظامیہ نے عوام کو بیوقوف بنانے کا منظم عمل شروع کیا، آر ڈی اے کو ایک لیٹر لکھا گیا، ساتھ چند لاکھ کے چیک کی تصویر لگاکر یہ تاثر دیا گیا کہ ہم نے فیس ادا کر دی ہے اور جلد ہی LOP منظور ہو جائے گا، بس اتنی سی غلط فہمی تھی جو دور ہوگئی۔ مگر سمجھدار سمجھ گئے کہ آر ڈی اے کو سامنے سامنے فیس کی صورت میں چند لاکھ جبکہ درپردہ ڈائریکٹر سے لے کر کلرک تک سب کو کروڑوں دیئے
گئے ہیں تبھی یہ منظم مہم اپنے اختتام کو پہنچی ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کے اس پلان کے بے نقاب ہونے کے بعد اگلا پلان لانچنگ تقریب منعقد کرنے کا تھا جس سے دو دن قبل ایک اور انداز میں عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی، ایک لیٹر شیئر کیا گیا کہ ہمیں NOC مل گیا ہے، حالانکہ عقلمند افراد جانتے ہیں کہ وہ لیٹر آر ڈی اے کی طرف سے کمپنی کو لکھا گیا تھا کہ درج ذیل چیزیں پوری کرکے آر ڈی اے کو پلان جمع کرایا جائے اس کے بعد LOP کی منظوری ہوگی، اس لیٹر پہ درج ڈائری نمبر کو ہاؤسنگ سوسائٹی کی طرف سے NOC کا نمبر بتاکر عوام کو جھانسہ دینے کی کوشش ہوئی، ظلم بالائے ظلم یہ کہ کمپنی کے CEO ملک بلال نے ویڈیو پیغام بھی جاری کر دیا کہ ہمیں این او سی مل گیا ہے، یعنی یہ ساری عوام اور اپنے تمام کسٹمرز کو بیوقوف سمجھتے ہیں، اس کے بعد لانچنگ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے ملک بلال نے LOPکا ذکر کیا کہ وہ منظور ہوگیاہے، حالانکہ LOPبھی منظور نہیں ہوا۔ یعنی انہوں نے اپنے کسٹمرز کیساتھ مسلسل جھوٹ بولا اور اس پہ ڈھٹائی کیساتھ قائم رہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بات جو قابل ذکر ہے کہ آر ڈی اے کی جانب سے کمپنی کے CEO اور کنٹری ہیڈ کیخلاف تھانہ گوجرخان میں دھوکہ دہی، جعلسازی کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا، جس میں سی ای او اور کنٹری ہیڈ نے نہ تو ضمانت کرائی،نہ شامل تفتیش ہوئے اور نہ پولیس نے انکی گرفتاری کیلئے کوئی تحرک کیا، باخبر ذرائع سے معلوم ہواہے کہ مبینہ طور پر ایس ایچ او گوجرخان، مقدمہ کے تفتیشی افسر، ڈی ایس پی آفس سمیت ضلعی افسران پر اس مقدمہ کا پیچھا نہ کرنے کا دباؤ رہا اور اس کیلئے مبینہ بھاری ہدیہ بھی پیش کیا گیا ہدیہ کی تعداد کروڑوں میں بتائی جارہی ہے، یہ بات قابل ذکر ہے کہ لانچنگ تقریب میں سی ای او، کنٹری ہیڈ کو پروٹوکول دینے کیلئے پنجاب پولیس کے ملازمین موقع پر موجود تھے، یہ اس کا بین ثبوت ہے کہ تھانہ گوجرخان کو ہدیہ کے عوض خریدا گیا تھا، بصورت دیگر پنجاب پولیس کے ملازمین کا اس تقریب میں ہونا اچنبھے کی بات ہے۔
قارئین کرام! اس تقریب کے 2 دن بعد کمشنر راولپنڈی ڈویژن نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ کیا کہ نیو میٹرو سٹی گوجرخان گرین ایریا میں ہے جس کی اجازت حکومت پنجاب نہیں دیتی، اس حوالے سے انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔یہ کمشنر راولپنڈی ڈویژن نورالامین مینگل کی حالت ہے جس پہ مجھے بھی ترس آرہاہے۔
اس ہاؤسنگ سوسائٹی کیلئے زمین کی خریداری دو سال سے ہورہی ہے، اربوں روپے ریونیو کی مد میں حکومت پنجاب کے اکاؤنٹ میں جا چکے ہیں، انتقالات کمپنی کے نام پہ ہورہے ہیں، لیکن حکومت پنجاب بے خبر رہی کہ یہاں کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے یا بنے گی؟ پورے ڈویژن کے کمشنر کے جاگنے کا یہ عالم ہے کہ جب لوگوں اپنے کروڑوں /اربوں روپے خرچ کر چکے، فائلز فروخت ہوچکیں، ان کی تقریب پوری آب و تاب کیساتھ ہوچکی اس کے دو دن بعد موصوف کی آنکھ کھلی ہے۔ یہ پنجاب کی بیوروکریسی کی حالت ہے۔ اگر یہ ہاؤسنگ سوسائٹی غیرقانونی و جعلی ہے لوگوں کے لگائے کروڑوں /اربوں روپے کون واپس کروائے گا؟ یا اس ٹویٹ کو صرف اپنا ہدیہ مقرر کرنے اور وصول کرنے کی حد تک سمجھا جائے؟ کیونکہ عوام بیوقوف ہے، اس ملک میں بیوروکریسی، لینڈ مافیا صرف عقلمند ہیں جیسا کہ ہمارے کمشنر راولپنڈی موصوف ہیں اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے کرتا دھرتا ہیں۔ بقایا اس ملک میں سب بیوقوف رہتے ہیں۔
نیو میٹرو سٹی ہاؤسنگ سکیم /سوسائٹی قانونی ہے یا غیر قانونی؟ آر ڈی اے، کمشنر راولپنڈی، ڈپٹی کمشنر کو ایک پیج پہ آجانا چاہیے اور ان کو کسی ایک میٹنگ میں حتمی یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ ورنہ عوام جب سڑکوں پہ آئی تو سوسائٹی سمیت پنجاب حکومت کو بھی لگ سمجھ جائے گی، کیونکہ گوجرخان کی عوام صبر بہت کرتی ہے مگر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق جب سڑک پہ آ جائے تو پھر نتیجہ لئے بغیر نہیں جاتی۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں