آج کے ڈیجیٹل دور میں جب ہماری ذاتی، سماجی، اور معاشی سرگرمیاں تیزی سے آن لائن منتقل ہو رہی ہیں، تو سائبر جرائم کا خطرہ بھی اسی تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں آن لائن دھوکہ دہی، ہراسانی، بلیک میلنگ، جعلی ویب سائٹس، شناخت کی چوری اور دیگر ڈیجیٹل جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے ریاستی اداروں کو ایک موثر اور خود مختار سائبر سیکیورٹی میکانزم تشکیل دینے کی طرف راغب کیا ہے۔ اسی پس منظر میں حکومت نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) کے تحت کام کرنے والے سائبر کرائم ونگ کو ایک خودمختار ادارے کا درجہ دے دیا ہے۔
یہ نیا ادارہ ”نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی” (ational Cyber Crime Investigation Agency – NCCIA) کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی کو ملک بھر میں سائبر کرائم کی روک تھام، تحقیقات اور کارروائیوں کے لیے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس ادارے کی تشکیل کا مقصد نہ صرف ڈیجیٹل جرائم کی فوری اور مؤثر روک تھام ہے بلکہ عوام کو ایک محفوظ آن لائن ماحول فراہم کرنا بھی ہے۔ NCCIA کو اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ جدید ٹیکنالوجی، مہارت یافتہ افرادی قوت، اور جدید ڈیجیٹل ٹولز کی مدد سے سائبر مجرموں کا مؤثر طریقے سے سراغ لگا سکے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لا سکے۔ پاکستان میں سائبر کرائم کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہے۔ ہر روز ہزاروں شہری آن لائن فراڈ، ہیکنگ، بلیک میلنگ، سوشل میڈیا پر ہراسانی اور دیگر ڈیجیٹل جرائم کا شکار ہوتے ہیں۔
خاص طور پر خواتین اور نوجوان طبقہ ان جرائم کا زیادہ نشانہ بنتا ہے۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے موجودہ نظام میں کئی خامیاں تھیں، جن میں تاخیر سے کارروائی، کمزور تفتیشی صلاحیتیں، اور تکنیکی مہارت کا فقدان شامل تھا۔ NCCIA ان تمام خامیوں کا ازالہ کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔یہ ادارہ جدید ترین سافٹ ویئر، ڈیجیٹل فورنزک لیبارٹریز، اور تربیت یافتہ سائبر ماہرین کے ذریعے کام کرے گا۔ اس کا ایک بڑا مقصد عوامی آگاہی کو فروغ دینا بھی ہوگا تاکہ لوگ خود کو سائبر حملوں سے بچا سکیں اور ایسے جرائم کی فوری اطلاع دے سکیں۔ اس ادارے کو براہِ راست وفاقی حکومت کی نگرانی میں رکھا گیا ہے تاکہ اس کی خود مختاری اور فعالیت میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔
مزید برآں، بین الاقوامی سائبر سیکیورٹی اداروں سے شراکت داری بھی NCCIA کی حکمتِ عملی کا حصہ ہوگی تاکہ سرحد پار ہونے والے سائبر جرائم پر بھی قابو پایا جا سکے۔عوامی تعاون اور آگاہی کی ضرورت،اگرچہ NCCIA ایک مضبوط ادارہ ہے، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار عوام کے تعاون پر بھی ہے۔ سائبر کرائم ایک ایسا خطرہ ہے جو صرف سرکاری سطح پر قابو نہیں پایا جا سکتا، جب تک کہ شہری بھی محتاط، باخبر، اور فعال کردار ادا نہ کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو سائبر سیکیورٹی کے اصولوں سے آگاہ کیا جائے، تعلیمی اداروں میں آگاہی مہمات چلائی جائیں، اور میڈیا کے ذریعے مسلسل رہنمائی فراہم کی جائے۔نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی کا قیام پاکستان کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ نہ صرف ڈیجیٹل تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد دے گا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے سائبر سیکیورٹی معیار کو بہتر بنانے کا ذریعہ بھی بنے گا۔ اس ادارے کی مؤثر کارکردگی کے لیے مسلسل حکومتی سرپرستی، جدید سہولیات، اور عوامی اعتماد انتہائی ضروری ہیں۔یہ قدم ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان سائبر اسپیس کو محفوظ بنانے کے لیے پرعزم ہے، اور اب ہر شہری یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ آن لائن دنیا میں محفوظ اور آزاد محسوس کرے گا۔ NCCIA ایک روشن اور محفوظ ڈیجیٹل پاکستان کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ایک ایسی بنیاد جو پاکستان کے لیے ضروری ہے۔حکومت سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی کے قیام کی بھی تجویز دے رہی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ضابط اخلاق کا پابند بنایا جائے گا، اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی صارفین کے ڈیٹا اور آن لائن حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
فی الحال ملک کے چند بڑے شہروں میں سائبر کرائم سیل فعال ہیں۔ این سی سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ضلعی سطح پر سائبر تھانے قائم کیے جائیں گے، جس سے شکایت درج کروانا آسان اور فوری ہوگا۔پیکا ایکٹ 2016 میں متعارف ہوا تھا۔ 2023 اور اب 2025 میں اس میں اہم ترامیم کی گئی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم عوامی مفاد میں کی گئی ہیں، مگر بعض حلقے انہیں آزادیِ اظہار پر قدغن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔