اپنے گھر کا تصور ہر انسان کی بنیادی اور فطری خواہش اور ضرورت ہے۔ اور جب یہی کیفیت اجتماعی سوچ میں تبدیل ہو جائے تو پھر اپنے ملک اور سر زمین کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے ۔ چنا نچہ اسی سوچ اور خواہش کے پسِ نظر میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ذہنوں میں ایک ایسی ریاست کے قیام کے تصور نے جنم لیا ۔ جہاں وہ پوری مذہبی آزادی اور روایات کے مطابق زندگی گزار سکیں اور انہیں ایک ایسا موثر نظامِ عدل و انصاف میسر ہوجس کے تحت کوئی کسی کی حق تلفی نہ کر سکے۔ اس کا خواب سب سے پہلے علامہ اقبالؒ نے دیکھا ۔ جسے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی انتھک جدوجہد سے 14 اگست 1947 کو شرمندہ تعبیر کر کے دکھایا۔اور برصغیر کے مسلمانوں کو مملکتِ خداداد’’ اِسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی صورت میں ایک بیش قیمتی اور انمول تحفہ عنا یت کیا ۔ اس کے حصول میں انھیں کن کن مشکلات سے دو چار ہونا پڑا وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔ جو فرد اپنے گھر کو پائیہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ وہی اس کی قدرومنزلت کو بھی سمجھتا ہے۔ تعمیر شدہ گھر میں جنم لینے والی نسلیں تو اس عمارت میں نقائص کی نشاندہی میں لگ جاتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے پیارے ملک کے ساتھ ہوا اس کے معمار اس کے معرض وجود میں آنے کے بعد جلد ہی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اور یہ ملک ان کے ہتھے چڑھ گیا جنہیں اس کی تعمیر و ترقی سے کوئی سرو کا ر نہ تھا وہ مسند اقتدار پر قا بض ہوتے وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے اور چلے جاتے۔ قومی اور ملکی معاملات سے عدم توجہی کی وجہ سے خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے اور اب نوبت یہاں آن پہنچی ہے کہ ہم اس کے وجود کو بر قرار رکھنے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ جو بھی برسرِ اقتدار آیا وہ شخصی اقتدار کو مضبوط کرنے اور اسے طول دینے کی تگ و دو میں لگا رہا۔ یہ ملک ایک طویل عرصہ فوجی حکمرانوں کے زیرِ تسلط رہا۔ جنہیں مسلط کرنے کا موقعہ بھی خود ہمارے سیاسی اکابرین ہی فراہم کرتے رہے۔ جب بھی ٹوٹی پھوٹی اور لولی لنگڑی جمہوریت آئی ہمارے سیاست دانوں نے اس کا وہ حشر کیا کہ ملک افراتفری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا دکھائی دیا۔ایک دوسرے کو زیر کرنے کی غرض سے کبھی ’’آئی۔جے۔آئی ‘‘ کا فورم بنا۔ کبھی مری ریسٹ ہاؤس اور چھانگا مانگا جیسی پناہ گاہیں تلاش کی جاتیں تا کہ کوئی دوسرا بیوپاری وہاں پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور اس کا انجام یہ ہوتا کہ بالآخر فوج کو ہی Takeover کرنا پڑتا اور پھریہی سیاست دان فوج کو خوش آمدید کہتے اور اس کا برملا اظہار مٹھائیاں تقسیم کر کے کرتے۔ جب بھی کوئی فوجی حکمران اقتدار پر قابض ہوتا اس وقت اس کے ذہن میں ملکی حالات کو سدھارنے کا ایک غیر متزلزل جذبہ اور عزم عیاں ہوتا ۔ مگر جب کچھ کرنے سے اپنے آپ کو عاری محسوس کرتا تو پھر محمد خان جونیجو، شوکت عزیز اور چوہدری برادران جیسے مہرے تلاش کرنے لگتا جو ان کی شخصی حکومتوں کا سہارا بنتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھر جمہوریت کی بحالی کی آوازیں اُٹھنا شروع ہو جاتیں۔ چار رونا چار اقتدار سیاست دانوں کو منتقل ہوتا تو وہ پھر سے تازہ دم ہو کر ایک دوسرے کے دست و گریباں ہو جاتے جس کا انجام پھر سے فوجی حکومت کے قیام پر منتج ہوتا۔لہٰذا جہاں ہم ملکی پسماندگی کے لئے فوجی حکمرانوں کو مورودالزام ٹھہراتے ہیں وہاں سیاست دانوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ تو یوں ہمارے 68 سال گزر گئے جو اقوام ہم سے بعد میں آزادی کی نعمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں وہ ہم سے کہیںآگے نکل چکی ہیں۔آج وہ ترقی یافتہ اور ہم ترقی پذیر ممالک کی صف میں سب سے آخر میں کھڑے ہیں۔ جس پارٹی کا منشور اٹھائیں ایک دوسرے سے بڑھ کر دلکش اور دلربا جو ایک خوشحال پاکستان کی نوید سناتا ہے۔ مگر ان کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا مشن کا صرف اور صرف اقتدار میں آنااور اس سے منسلک مراعات اور سہولیات سے لطف اندوز ہونا ہے۔ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد ملکی اور قومی مفادات پسِ پُشت ڈال دیئے جاتے ہیں۔ اور ان کا تمام تر فوکس اقتدار کی مضبوطی اور طوالت پر ہوتا ہے۔ ائر کنڈیشنڈ گاڑیوں ، دفاتر ، رہائش گاہوں اور شہنشاہانہ ٹھاٹھ کے protocol کے مزے لینے سے قوم کی رہنمائی نہیں ہو سکتی بلکہ اس مقصد کے لئے اپنے آرام و آسائش کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔ چونکہ ذاتی اور شخصی مثال ہی دوسروں کو عمل کی جانب راغب کرتی ہے۔ ملک کو ان دگرگوں حالات میں گھیرے دیکھ کر عمران خان صاحب میدانِ عمل میں اترے انہوں نے ہر شعبہ ہائے زندگی کی خرابیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی۔ جو100% درست ہیں ان سے کوئی بھی چشم پوشی اور انکار نہیں کر سکتا۔اُنہوں نے ان خامیوں اور خرابیوں کے تدارک کے لئے تبدیلی کا ایک پروگرام ’’نئے پاکستان‘‘ کے نام سے شروع کیا۔ تا ہم اختیارات کی عدم موجودگی میں اِس پر عمل پیرا ہونا ناممکن نظر آیاتو حصول اقتدار کی ابتد ا 2013 کے عام انتخابات کے انقعاد کے ایک سال بعددھاندلی کے الزام سے کی۔ پہلے 4 حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا جو بعد میں Re-election تک جا پہنچا۔ ان مطالبات کے ماننے میں حکومتی سرد مہری سے بات دھرنوں اور قومی اداروں کے گھیراؤ تک پہنچا دی گئی۔ اپنی تقاریر میں توہین آمیز، غیر مہذب اور غیر پارلیمانی لہجہ اختیار کر کے ملک بھر میں غیر یقینی سی کیفیت پیدا کر دی۔نتیجتاََ بیرونی سرمایہ کاری، معاشی اور سیاسی استحکام کو بُری طرح دھچکا لگا۔ اقتدار کی خواہش اور حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر قانون سے بالا تر ہو کر نہیں۔ قومی اداروں اور املاک کو نقصان پہنچانے سے اِس کا حصول ممکن نہیں۔کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کا قد کاٹھ جانچنے کا پیمانہ صرف انتخابات ہوتے ہیں۔ جلسے جلوسوں میں گردونواح سے لوگوں کو اکٹھا کرنے سے اکثریت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔2013 کے عام الیکشن کے بعد اب تک تقریباً20 ضمنی الیکشن ( جن میں KPK بھی شامل ہے) ہوئے۔ اورماضی قریب میں سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخاب کا انعقاد ہوا۔ان الیکشن کے دوران جہاں آپ نے فوج یا رینجرز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا۔ وہ بھی پورا ہوا ۔ مگر اس کے باوجود نتائج تحریک انصاف کی توقعات کے برعکس آئے۔تو کیا یہ سب کچھ آپ کے الزامات اور پالیسیوں کی نفی نہیں تو کیا ہے۔ لہذا ’’ میں نہ مانوں‘‘ اور الزام تراشی اور دھاندلی فوبیا سے باہر نکلیں کیوں کہ عوام نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ اور جمہوری روایات بھی اِس کی متقاضی ہیں کہ اکثریتی رائے کا احترام کیا جائے۔ آپ کے پاس اصولِ اقتدار کا بہترین ذریعہ KPK حکومت ہے ۔ جس کی کارکردگی کو مثالی بنا کر اکثریت کو اپنی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ یہ سب کچھ کر دکھائیں تو اگلا الیکشن یقیناًآپ کا ہو گاپھر آپ اپنی مرضی سے ’’ نیا پاکستان‘‘ بنائیں یا کچھ اور۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔ فی الحال ضرورت اِس امر کی ہے کہ باہمی افہام و تفہیم ، برداشت اور رواداری کو پروان چڑھایا جائے۔ اور وطنِ عزیز کو درپیش مسائل اور چیلنجوں کا مل جل کر حل تلاش کیا جائے۔ اِسی میں ملک و ملت کا مفاد وابستہ ہے۔{jcomments on}
77