نو مئی مقدمات میں پی ٹی آئی کے 4 کارکنان باعزت بری

اسلام آباد (نمائندہ پنڈی پوسٹ)پاکستان تحریک انصاف کے 9 مئی کے مقدمے میں سزا یافتہ چار کارکنان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے باعزت بری کر دیا ہے۔

اس مقدمے میں ڈاکٹر بابر اعوان (سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان) کی سربراہی میں مکمل قانونی ٹیم نے بھرپور دلائل پیش کیے، جس میں بیرسٹر عبداللہ بابر اعوان، آمنہ علی، سردار محمد مصروف خان، زاہد بشیر ڈار، مرتضیٰ حسین توری، فتح اللہ برکی اور شاہینہ شہاب الدین شامل تھے۔

ڈاکٹر بابر اعوان، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے کل 21 گواہان میں سے کسی بھی گواہ نے اپنے بیانِ ان چیف میں یہ نہیں کہا کہ ملزمان نے وقوعہ کے دوران کسی غیر قانونی سرگرمی میں حصہ لیا یا موقع پر موجود تھے۔ صرف ایک گواہ نے شناخت کے حوالے سے محدود بیان دیا، جو شکوک و شبہات سے پاک نہیں ہے۔

علاوہ ازیں، استغاثہ کی طرف سے جو ریکوریز دکھائی گئی ہیں، وہ نہایت کمزور اور ناکافی شہادت پر مبنی ہیں:

ڈاکٹر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ مقدمے میں ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس اور براہِ راست ثبوت موجود نہیں ہے۔ استغاثہ نے محض ڈنڈا، ٹوپی اور جھنڈے کی برآمدگی دکھا کر الزامات ثابت کرنے کی کوشش کی، جو ناکافی اور غیر متعلقہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ استغاثہ عدالت میں کوئی CCTV فوٹیج بھی پیش نہ کر سکا، اور جب ججز کی جانب سے بار بار وضاحت طلب کی گئی تو کوئی معقول جواب دینے کے بجائے یہی مؤقف اپنایا گیا کہ مظاہرین نے کیمرے توڑ دیے تھے۔ ان تمام نکات کی بنیاد پر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ کیس میں نہ کوئی شواہد ہیں اور نہ ہی قانونی تقاضے پورے کیے گئے، اس لیے ملزمان کو بری کیا جائے۔

ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ محض ان اشیاء کی برآمدگی کو، بغیر کسی مضبوط گواہی یا ٹھوس شواہد کے، ملزمان کی ملوث ہونے کا ثبوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے مطابق، استغاثہ کے شواہد میں بنیادی خامی یہ ہے کہ نہ تو شناخت پریڈ قانونی تقاضوں کے مطابق کروائی گئی، اور نہ ہی کوئی ایسا شہادت پیش کی گئی جو ان اشیاء کی برآمدگی کو وقوعہ کے ساتھ منسلک کر سکے۔

مزید برآں، شہادت کا اصول یہ ہے کہ ہر الزام کو شک سے بالاتر ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے، جو اس کیس میں پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ جب کسی کیس میں شک و شبہ کی گنجائش موجود ہو، تو قانون کے مطابق اس کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر بابر اعوان کے مطابق، موجودہ شواہد کی روشنی میں ملزمان کے خلاف سزا برقرار رکھنا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے، بلکہ یہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق، بالخصوص آرٹیکل 10-A (منصفانہ ٹرائل کا حق) کی بھی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے چاروں کارکنان کو 9 مئی کے مقدمے سے باعزت بری کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں