نوید ملک‘شاعرناول و افسانہ نگار

نوید ملک 10جون1982کو گلگت میں پیدا ہوئے۔ آج کل کہوٹہ روڈ چکیاں ضلع اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ راقم کی ان سے کئی مشاعروں اور ادبی محفلوں میں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ آپ کا شمار ان نوجوان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے نظم و غزل دونوں اصناف میں عمدہ کلام کہا اور منفرد شناخت بنائی۔ آپ کا غزلیہ مجموعہ اک سفر اندھیرے میں 2011 میں شائع ہوا، نظمیہ مجموعہ ”کامنی“2013 میں شائع ہوا۔ طویل نظم ”منقوش“ 2021میں شائع ہوئی جبکہ چوتھا غزلیہ مجموعہ تاب دان 2022 میں شائع ہوا۔آپ کے تمام شعری مجموعوں کو دنیائے ادب میں پذیرائی حاصل ہوئی اور بین الاقوامی سطح پر قارئین نیسراہا۔ آپ کی شاعری پر نمل یونیورسٹی میں مقالہ لکھا جا چکا ہے۔ آپ کئی ادبی تنظیموں کی سر پرستی کر چکے ہیں اور مشرق کے نام سے اپنی بھی ادبی و ثقافتی تنظیم کی بنیاد رکھی ہے۔

آپ کے فن اور شخصیت پر معتبر شعرا اور ناقدین قلم اٹھا چکے ہیں اعزازات:سخنورایوارڈ‘رحیم یارخان 2012، ایوارڈ برائے حسن کارکردگی 2013ادب سرائے انٹر نیشنل پاکستان،ادبی دنیا ایوارڈ برائے بہترین شاعری2020،مجید امجد ایوارڈ برائے سال 2014 قلم کارواں پاکستان،ایوارڈ برائے حسن کارکردگی) 2014علمی وادبی تنظیم دائرہ، شیخوپورہ، سند حسن کارکردگی 2018، در پیچ ادب ویلفیئر سوسائٹی، پاکستان، اعزازی سند نسل نو مشاعرہ2019، پریس کلب راولپنڈی مجید امجد ایوارڈ 2021پر لیس فار پیس فانڈیشن، اعزازی سند برائے ادبی خدمات 2021، انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان، ایوارڈ برائے حسن کارکردگی برائے سال 2021 ادب، سماج، انسانیت، بیسٹ پر فارمنس ایوارڈ دلبر خان ویلفیئر ٹرسٹ، بھلوال2022، سندشراکت، کل پاکستان نسل نو مشاعرہ، آرٹس کونسل الحرا(لاہور)،حکومت پنجاب2012،شیلڈ برائے اعتراف سخن، آل پاکستان میڈیا کونسل2022،14 ایوارڈ برائے حسن کار کردگی ویلفیئر آرگنائزیشن اوور سیز پاکستان2014 نوید ملک سے شعر و ادب کے حوالے سے ایک تفصیلی گفتگو ہوئی جوند رقارئین ہے۔ شاعری کا آغاز کب کیا؟ 1998 میں شاعری کا آغاز کیا جب میں میٹرک کا طالب علم تھا۔ اس زمانے میں ایک نعت خود ہی لکھی اور پڑھی بھی اس کے بعد کالج میں پڑھائی کے دوران آمد کا سلسلہ جاری ہوا۔ شروع شروع میں نہ تو اوزان کا پتا تھا نہ کوئی اساتذہ ایسے ملے جن سے کچھ سیکھ سکوں۔2005 میں میری ملاقات معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس منشا یاد سے ہوئی انہوں نے حلقہ ارباب ذوق میں آنے کی دعوت دی حلقے میں جلیل عالی محمد حمید شاہد، اخترعثمان علی محمد فرشی، ڈاکٹر روش ندیم اور دیگر معتبر ادبی شخصیات کے علمی مباحثوں سے بہت کچھ سیکھا۔

شاعری میں با قاعدہ کوئی استاد نہیں ہے۔ حلقے میں جب میری پہلی غزل تنقید کے لئے پیش ہوئی تو وہ وزن میں تھی کسی سے اصلاح نہیں لی۔ شاعری کے لئے کیا استاد کا ہونا لازمی ہے کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگے کہ استاد کا ہونا لازمی نہیں ہے لیکن شعر کوموزوں بنانے کے لئے سینئر شعرا ء کی گفتگو سے استفادہ کرنا ضروری ہے اور جہاں تک سیکھنے کی بات ہے آج کل تو انٹر نیٹ پر علم عروض سیکھنے کے کئی وسائل موجود ہیں۔ آغاز میں کچھ افسانے لکھے ایک ناول کی ابتدا کی لیکن بعد میں ساری توجہ شاعری پرمرکوز کی افسانوں اور ناولوں کو چھوڑ دیا۔ با لکل جم کر بیٹھنا ضروری ہوتا ہے اس کے لئے آپ کو کمرے میں بیٹھ کر کئی کئی کاغذوں کو الٹ پلٹ کرنا پڑتا ہے جب کہ شاعری آپ چلتے پھر تے بھی کر سکتے ہیں۔ بیٹھنامیرے لئے کافی مشکل ہے۔ دو غزلوں کی کتابیں آئی ہیں دو نظموں کی دونوں میری پسندیدہ اصناف ہیں موزوں اور خیال خود فیصلہ کرتے ہیں کہ نظم بہتر ہے یا غزل۔ایک سوال نو جوان شعرا میں اچھی اور معیاری شاعری کے امکانات موجود ہیں؟ کہ جواب میں کہا میرے خیال میں موجودہ دور کے اندر سارے نو جوان شعرا اور شاعرات کی شاعری میں روشن امکانات موجود ہیں۔

موجودہ دور کے لاثانی رحجانات کے پیش نظر چمک دار مصرعے کہتے ہیں لیکن دونمبر شاعر اور شاعرہ اس فہرست میں نہیں آتے گو کہ ان کی موجودگی سے بھی کئی مشاعرے چمکتے ہیں۔ لکھنے کے لئے ادبی ماحول کا ہونا ضروری نہیں بے شمار ادیب ایسے ہیں جن کے خاندان میں دور دور تک کسی ادیب کا نام نہیں آتا البتہ جن لوگوں کو بچپن سے ادبی موحول ملتا ہے ان کے لئے یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس پر میں نے ایک شعر کہا تھا جو کچھ یوں ہے ہر اک کہنہ روایت توڑنے کا فیصلہ کر کے پرانے جتنے کچھوے تھے نئے تالاب میں آئے کئی شاعر غیر جانبدارانہ ادبی خدمات کا اعلان کر کے میدان عمل میں آتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد اپنی ذات کی تشہیر میں لگ جاتے ہیں۔ میں حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی کا جوائنٹ سیکرٹری رہا سخنور پاکستان کا صدر رہا اور اب انٹر نیشنل رائٹر فورم پاکستان کی سر پرستی بھی کر رہا ہوں۔ میں نے”مشرق“ کے نام سے تنظیم بنائی اور اقبال کے اس مصرع سے نام اخذ کیا”مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ“ اس تنظیم کی بنیاد اس لیے رکھی تا کہ ادبی تقاریب کے ساتھ ساتھ نسل نو کی کردار سازی کے لیے قلمی منصوبے تشکیل دیے جائیں۔ ابھی بہت سارے کام ہیں جو کرنے ہیں۔ جب تک مشاعروں میں شرکت کا جنون ہو شاعر ہر حال میں مشاعرے میں پہنچ جاتے ہیں اور جب جنون ختم ہو جائے تو مشاعروں میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ بڑے بڑے اچھے شعرا ہیں جنہیں مشاعروں میں مدعو کیا جائے تو وہ معذرت کر لیتے ہیں۔ 2012 میں حکومت پنجاب نے الحمرا آرٹس کونسل ہال لاہورمیں نسل نو مشاعرہ کا انعقاد کیا جس کے لئے میں نے اپنی کچھ تخلیقات بھیجی تو عطا الحق قاسمی صاحب کا فون آیا کہ آپ نے نسل نو مشاعرہ میں شرکت کرنی ہے۔ شعری میدان میں میرٹ پر پورا اتر نا میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے نوید ملک آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت مجھے دیا اورمیرے سوالات کے جوابات دیئے۔

آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے اس قابل سمجھا کہ میری باتوں کا ابلاغ دوسروں تک ہو دوسرا میرا پیغام اُن اداروں کے لئے ہے جن میں اہل قلم کام کرتے ہیں لیکن ان کی عزت افزائی نہیں کی جاتی اس کے بعد میرا پیغام ان شاعروں کے لئے ہے جو گروپ بندی کرتے ہیں اور اپنی تشہیر کے لئے دوسرے شعرا پر الزام تراشی کرتے ہیں انہیں اپنے منفی رویوں کی اصلاح کرنی چاہیے اور تخلیق کاری کو تخریب کاری سے بچانا چاہیے
میں قدم بھی اُٹھاتا ہوں سفر بنتے ہیں
کئی رستے میرے ہونے سے ادھر بنتے ہیں
کوزہ گر چاک گھماتے ہوئے یہ بھی تو بتا
حوصلے کون سی چکی میں کدھر بنتے ہیں
آپ سورج ہی سہی دھوپ کی دھمکی تو نہ دیں
آپ جیسے تو مرے زیر اثر بنتے ہیں
اس بغاوت سے بھلا کیوں تجھے نفرت ہے بہت جس سے دنیا میں کئی اور نگر بنتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں