نوجوان کے قتل پر سیاسی زعما ء کی پراسرار خاموشی

جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی

موجودہ دور کو ذرا باریک بینی سے دیکھیں تو ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سماج میں منفی قدروں کو استحکام حاصل ہورہا ہے ہم نفسیاتی اخلاقی تہذیبی اور سیاسی اعتبار سے دیوالیہ ہوکر رہ گئے ہیں۔قوم کے بااثر طبقات نے زہرناک اور ہلاکت خیز قدروں کو سماجی زندگی میں بنیادی حیثیت دے دی ہے چنانچہ آج ہمارے سماج میں غریب اور امیر جیسے شرمناک الفاظ گفتگو میں بار بار استعمال کیے جاتے ہیں اخلاقی اور سماجی طور پر ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ پاکستان میں دو قومیں آباد ہیں ایک غریب ایک امیر ایک کرسی نشین اور ایک خیمہ بردار۔وہ قوم جو زندگی کا کوئی اعلیٰ تصور نہ رکھتی ہو جو المناک غربت میں مبتلا ہو اس کے لیے بااثر طبقے میں کوئی ہمدردی کوئی احساس نہیں پایا جاتا۔

ہر روز اس قسم کی کہانیاں سننے کوملتی ہیں جس میں غریب کی بے بسی اور لاچارگی کو واضع کیا جاتا ہے۔گذشتہ دنوں بیول میں زمین کے تنازعے پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں بیول محلے کے ہاورن نامی ایک بے گناہ نوجوان کی شہادت پر عوام میں جو غم وغصہ نظر آیا اس میں ہمارے سیاسی اکابرین کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔مسلم لیگ ہو پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف کسی جماعت کے مقامی رہنماء نے اس خون ناحق پر کوئی مذمتی بیان جاری کیا اور نہ ہی متاثرہ خاندان سے اظہار یکجہتی کی گئی جبکہ اس وقت الیکشن کے حوالے سے ماحول گرم ہے۔اسے ماحول میں تو سیاسی رہنماء کچھ وقت کے لیے ووٹروں کے ہمدرد بن کر ان کی شادیوں اور جنازوں میں نمایاں نظر آیا کرتے ہیں لیکن یہاں تو وہ منافقت بھی نظر نہیں آئی۔بلکہ یہ سب لوگ پراسرار طور پر خاموش رہے انہیں یہ یاد نہیں رہا کہ رشتے ناطے دل کی دنیا پر استوار ہوتے ہیں۔

جو دل کی سرحد سے پار ہوجائے ان سے کسی بھی قسم کی تعلق داری قائم نہیں رہتی۔یہ لوگ قوت واخوت‘مخلصی اور سچائی ہر محاذ پر پسپا ہیں کیونکہ پاکستان کی سیاست صرف اپنی ذات میں قید رہنے کا نام ہے سیاسی لوگ میں سے نکل کر ہم میں داخل ہونے پر کبھی آمادہ نہیں ہوسکتے۔سفید اور بے داغ لباس میں ملبوس ہماری سیاسی مخلوق تسیلوں اور خوابوں کے جھوٹ کے ہمراہ بظاہر ہمارے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اصل میں ان کے چہروں پر پڑے نقابوں کے پیچھے سفاکی بربریت کا ایک الگ روپ ہوتا ہے ان کی حقیقت کو زندگی کیلئے سسکتے اور بلکتے امید و ناامیدی کے درناک وادیوں میں ڈوبتی ابھرتی عوام پچھتر برسوں سے نہ جان سکی ان کی بے حسی نہ بولتی ہے اور نہ سنتی ہے۔

ان لوگوں نے ہماری امیدوں کو روند ڈالا ہے ہم روتے ہیں مگر ہماری آنکھیں بنجر ہیں بیول سانحے پر سیاسی لوگوں کی خاموشی کو لے کر علاقہ مکنیوں میں کافی غم وغصہ پایا جاتا ہے۔خصوصاً نوجوانوں نے اس معاملے کو بہت ہی سنجیدگی سے لیا ہے گذشتہ دنوں نوجوانوں کی ہونے ایک میٹنگ میں اس حوالے سے ایک اہم فیصلہ کیا گیا جس کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کے مقامی اکابرین کے بائیکاٹ کا اعلان سامنے آئے۔نوجوانوں کے علاوہ عمررسیدہ لوگ بھی سیاسی افراد کے اس معاملے سے لاتعلقی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے اور غالب امکان یہ ہے کہ یہ ایشو الیکشن مہم کے دوران پوری شدومد کے ساتھ سامنے آنے پر سیاسی افراد کو لاتعلقی کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

اس ایشو پر ردعمل آنا بھی چاہیے ہمارے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے اگر ہمارے دُکھ درد میں شریک نہیں ہوسکتے ہم پر ہونے والے ظلم پر مذمت کے دو لفظ نہیں کہہ سکتے تو وہ ہمارے ووٹوں کے حقدار بھی نہیں ہوسکتے اور ہمیں پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر اپنی طاقت کا مظاہرہکرنا چاہیے۔ان اکابرین کو شاید علم نہیں کہ تاریخ کا ایک اصول ہے دن پر دن گذر جائیں مگر داستانوں پر گرد نہیں جمتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں