نوجوان نسل میں مثبت سوچ اور ذوق مطالعہ

نوجوان نسل میں تعمیری سرگرمیاں اور شعور بیداری سب سے اہم ضرورت ہوتی ہے۔مثبت سوچ فروغِ علم سے پختہ تر ہوتی ہے اور نوجوان نسل میں”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“کے فلسفہ کو سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتی ہے۔تعلیم تو ایسا زیور اور دولت بے بہا ہے جس سے نہ صرف نوجوان نسل کو حقیقی معنوں میں مفید شہری بناتی ہے بلکہ افراد معاشرہ کے رویہ و کردار میں نمایاں تبدیلی پیدا کرتے کامل انسان بھی بناتی ہے۔وقت کا سب سے بڑا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ علم حاصل کیا جاۓ۔علم تو ایسا سمندر ہے جس کا کوٸی کنارا بھی نہیں۔اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا”تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے“گویا نوجوان نسل کو اس کاٸنات میں آنے اور حقیقی کردار کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے حوالے سے قیمتی بات کہہ گٸے تھے جو آج بھی روشن چراغ کی طرح عیاں ہے۔نوجوان نسل سے محبت بھی تو کس قدر تھی اس کا اظہار بھی تو کیا اپنے کلام میں کیا۔بقول اقبالؒ


محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ ڈالتے ہیں جو کمند


اس کے تناظر میں جاٸزہ لیا جاۓ تو قوم کے سرمایہ اور اثاثہ میں نکھار پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ نکھار اور خوبصورتی فقط علم کی روشنی اور تعلیم کے زیور سے پیدا ہوتی ہے۔دانشور کہتے ہیں کہ پھول زرخیز زمین میں پیدا ہوتے ہیں۔بنجر زمین میں تو کانٹے اور خاردار جھاڑیاں ہی اگتی ہیں۔اس لیے نوجوان نسل میں اچھی عادات کا فروغ اور بہتر رویے علم کے زیور سے ممکن ہو سکتے ہیں۔بصورت دیگر جہالت اور گمراہی سے زندگی بسر ہونے سے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔

طلبہ میں کتب بینی کے ذوق کو رواج دینے سے سوشل میڈیا اور دیگر سرگرمیوں میں وقت کے ضیاع کی روک تھام کی جا سکتی ہے نیز کتب خانوں میں مطالعہ سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ طلبہ میں مثبت خیالات بھی فروغ پاتے ہیں۔عصرنو کے تقاضوں سے ہم آہنگی کتاب دوستی سے بہتر انداز سے پیدا کی جا سکتی ہے۔سماج میں نوجوان نسل کی بہتر رہنماٸی کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ذوق مطالعہ سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ زندگی کے انداز اور اسلوب بھی بہتر انداز سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

قومی اور ملی تقاضے بھی یہی ہیں کہ نوجوان نسل کو بامقصد تعلیم دی جاۓ تاکہ تاریخ ساز انقلاب کی راہ ہموار ہو۔جب نوجوان مثبت سوچ اور اچھے خیالات کے مالک ہوں گے تو مثبت تبدیلی پیدا ہو گی۔معاشرتی زندگی کے حسن میں رعنائی پیدا کرنے کے لیے بھی تو علم کی روشنی ناگزیر ہے۔نوجوانوں میں خودکشی کا بڑھتا رجحان ٬منشیات کی طرف میلان اور سوشل میڈیا پر منفی سرگرمیوں میں جنون کی حد تک دلچسپی ایسے عوامل ہیں جن سے انہیں دور رکھنا مقصود ہونا چاہیے۔تعلیم اور اس کا کردار تو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔تعلیم تو ایسا خوبصورت زیور ہے جس کی روشنی سے رویہ و کردار اور فلسفہ زندگی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔بقول اقبالؒ
عقابی روح جب بیدار ہوتی جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
وقت کا تقاضا بھی تو یہی ہے اس پرفتن دور میں قوم کے معماران کو زندگی کے تقاضوں سے آگہی کے لیے با مقصد تعلیم دی جاۓ۔اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے فلسفہ سے آگاہ کیا جاۓ۔اس ضمن میں اساتذہ اور تعلیم یافتہ افراد کی بے پناہ ذمہ داریاں ہیں۔اس لیے جس حد تک ممکن ہو نوجوان نسل میں احساس ذمہ داری اور خوداری کے جذبات پیدا کیے جائیں۔یہ راز اچھی طرح جاننے کی ضرورت ہے کہ نوجوان سماجی اور معاشرتی ماحول سے اثر قبول کرتے ہیں۔اس لیے ماحول کی بہتری کے لیے ان کو رغبت دلانا بھی ازحد ضروری ہے۔اخلاقی بے راہ روی سے نوجوان نسل تباہ و برباد ہوتی ہے۔اس طوفان بلاخیز سے انہیں محفوظ رکھنا وقت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

فخرالزمان سرحدی ہری پور