نوجوان انسانی سمگلروں کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھا/ شہزاد رضا

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں انسانی سمگلنگ کا کاروباراپنے عروج پرپہنچ چکا ہے کچھ عناصر ٹریول ایجنٹ کی آڑ میں پاکستانی جوانوں کی زندگیاں داؤ پر لگائے ہوئے ہیں ۔گزشتہ سال امریکہ کی جانب سے دنیا بھر میں ہونے والے اس لعنتی کاروبار

کے بارے میں 188ممالک کی رپورٹ شائع کی جس میں تین کیٹیگریز بنائی گئیں ٹاپ ون کیٹیگری میں ان تمام ممالک کو شامل کیا گیا جنھوں عالمی قوانین کے تحت انسانی سمگلنگ کو روکنے میں مثبت کردار ادا کیا ،ٹاپ ٹو میں ان ممالک کی فہرست شائع کی گئی جنھوں نے کم ازکم یا کسی حد تک انسانی سمگلنگ روکنے میں کوششیں جاری رکھیں اور پاکستان کو بھی ٹاپ ٹو میں جگہ مل سکی،ٹاپ تھری میں ان تمام ممالک کی فہرست شامل تھی جن کی کوششیں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ انسانی سمگلنگ کا دھندہ اتنے عروج پر ہے کہ یہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس میں سالانہ 150ارب ڈالر دھکیل دئیے جاتے ہیں ۔صورت حال یہاں تک آچکی ہے کہ پاکستان کو اب سمگلنگ کے لیے گزرگاہ کے طور پر بھی استعما ل کیا جار ہا ہے ۔
انسان اور انسانی جسم کے اعضاء کی فروخت کا دھندہ آج سے نہیں بلکہ یہ قیام پاکستان کے وقت ہی شروع ہو گیا تھا پہلے پہل بیرون ممالک کے سمگلر پاکستان کو سمگلنگ کے لیے محفوظ ملک تصورکرتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ یہ دھندہ پاکستان میں بھی آپہنچا اور اس نے کئی ماؤں کی گود کو اجاڑا کئی والدین کے سہاروں کو چھینا کئی بیٹیوں کی عزتوں کا جنازہ نکالا لیکن اب تک ہم اس بحران سے نکلنے کی بجائے مزید اس میں دھنستے چلے جار ہے ہیں عاطف علی جو تحصیل کلرسیداں کے شہر چوک پنڈوڑی و ضلع راولپنڈی کا رہائشی تھا جو ابھی ابھی والدین کا سہارا بننے کے قابل ہوا تھا جس کو معلوم نہیں تھا کہ میری موت اس غیر قانونی سفر کے دوران آئے گی جو یہ بات نہیں جانتا تھا کہ میں مجھے یورپ جانے کے سپنے تو دکھائے گئے لیکن یورپ جانے تک مجھے کن کن دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑے گا وہ نہیں جانتا تھا کہ بغیر کوئی جرم اس کی موت اتنی درد ناک ہو گی پنڈی پوسٹ نے عاطف علی کے والد ڈاکٹر محمد پرویز اور اس کے دوست چوہدری عامر رانا سے ملاقات کی ان کے والد ایک گورنمنٹ ادارے سے ریٹائرڈ ہیں عاطف کی 3بہنیں اور ایک بھائی عادل ہے مگردونوں کی گہری دوستی ہونے کے باعث عامر رانا،عاطف اور عادل تین بھائی کہلاتے تھے ڈاکٹر محمد پرویز نوشہرہ ورکا ں سے تین دہائیاں قبل چوک پنڈوڑی آگئے تھے عاطف نے تعلیم چوک پنڈوڑی کے ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے سے حاصل کی تھی وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔رانا عامر کے مطابق عاطف نے I.csکر رکھاتھا اور میڈیا ایڈوائزر کا کورس بھی کیا ہوا تھا عاطف کی عمر بیس سے اکیس سال کے درمیان تھی ہماری آخری ملاقات 11گیارہ جولائی کو ہوئی وہ دن ہم نے اسلام آباد میں گزارا اس ملاقات میں عاطف نے مجھے بتایا کہ میں میڈیاایڈوائزر کورس جو اس نے کر رکھا تھا اسی سلسلے میں تین ماہ کے لیے کراچی جا رہاہوں لہذا آپ میرے بعد گھر کا خیال رکھنا ہماری ملاقات تین ماہ بعد کراچی سے واپسی پر ہوگی اور ہوا بھی یہی ٹھیک تین ماہ اور ایک دن بعدگھر لوٹا مگرعاطف بند تابوت میں آیا۔جبکہ عاطف نے یہ سب جھوٹ بولا صرف اس لیے کہ میں تین ماہ میں فرانس پہنچ کر اپنے دوست یعنی مجھے سرپرائز دے گا لیکن قدر ت کو ایسا منظور نہ تھا جبکہ گھر والوں کو اس نے سختی نے منع کررکھا تھا کہ مجھے اس سارے واقع کا علم نہ ہونے پائے وہ اس سارے وقت میں بذریعہ انٹرنیٹ اپنے چھوٹے بھائی عادل سے رابطے میں تھا کراچی سے ان کو ایران پھر ایران سے ترکی کے لیے بھیجا گیا ترکی سے یونان کے لیے روانگی سے قبل عاطف اور اس کے کزن جہانزیب نے ایک ویڈیو پیغام میں گھر والوں سے دعاؤں کی اپیل کرتے ہوئے اپنی منزل یعنی (فرانس)پہنچ کر رابطہ کرنے کوکہا رانا عامر نے بتایاکہ ہمیں نہیں معلوم وہ کون لوگ تھے جن کے ذریعے عاطف اور اس کا کزن جہانزیب جو ابھی تک لاپتہ ہے نے یہ غیر قانونی سفر کیا اس نے جانے سے قبل صرف اپنی والدہ کو بتایا کہ میں فرانس کے لیے جارہاہوں لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیسے جارہاہوں ۔یونان کی سرحد کراس کرتے ہوئے کوس گارڈ نے کشتی کو روکنے کی کوشش کی کشتی نہ رکنے پر گارڈز نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں عاطف سمیت کئی لوگوں کی جانیں گئیں اورکئی لاپتہ ہوگئے سارے ا واقعہ آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ کیا یہ عاطف کی غلطی ہے کہ اس نے بغیر کسی سے مشورہ کیے یہ غیر قانونی سفر کیا؟ اس کو اس کی ضرورت آخر کیوں پیش آئی ؟کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ ہمارے ملک میں پڑھے لکھے جوانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جارہاہے ؟اس نے اس سارے عمل سے اپنے دوستوں اور فیملی کوکیوں پوشیدہ رکھا؟شاید وہ ایسا نہ کرتا تو اس کی جان بچ جاتی ؟آج ایک ماں کی گود تو اجڑ گئی ۔ایک باپ سے اس کے بڑھاپے کا سہارا تو چھن گیا۔بہنوں سے ان کا ویر بچھڑ گیا ۔یہ کون لوگ ہیں جن کے چہرے سے نقاب ہٹانے میں ہماری حکومت اورسکیورٹی اداروں کو مشکل پیش آرہی ہے ہم نے ہی ان کو بے نقاب کرنا ہے جو پیسے کی خاطر اس گندے کاروبار میں ملوث ہیں عاطف کے والدین اور دوستوں نے اپنے پیغام میں نوجوانوں سے کہا کہ وہ کوئی بھی ایسا کام کرنے سے پہلے گھر والوں سے پوشیدہ نہ رکھیں متعلقہ لوگوں سے مشاورت کریں ۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں