نواز شریف فیصلہ ‘ ن لیگ نے چپ سادھ لی

عبدالستار نیازی ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ آ گیا، گوجرخان کی سیاست میں کوئی ہلچل نہ آئی، کسی لیڈر نے باہر نکل کر کسی احتجاج یا ریلی کی قیادت نہیں کی، پانچ سال تک ایم این اے رہنے والے راجہ جاوید اخلاص ، صوبائی وزیر رہنے والے چوہدری محمد ریاض، مسلم لیگ ن کے تحصیل صدر راجہ حمید نے انتخابی مہم کو ضروری سمجھا کیونکہ نواز شریف اب پارٹی کے صدر نہیں رہے اس لئے ان کے حق میں احتجاج کرنا کسی کام کا نہیں،اب نظریں شہباز اور حمزہ پر مرکوز ہیں، مسلم لیگ ن کے نظریاتی کارکن خواجہ جہانگیر نے 15/20 افراد پر مشتمل بھاگم بھاگ ریلی نکالی اور چوک میں دونوں سڑکوں کے درمیان ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوکر جذباتی تقریر کی ، بھاگم بھاگ ریلی کی وجہ شاید تیز دھوپ تھی یا پولیس کا ڈر تھا کہ سڑک بند کرنے کی وجہ سے کہیں مقدمہ درج نہ ہو جائے، مگر دو دن بعد ہی خواجہ جہانگیر نے پریس کانفرنس میں کہہ دیا کہ میں نے ریلی اپنی غیرت کے تقاضے کے تحت نکالی تھی

،ان کا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جنہوں نے ریلی نہیں نکالی یا اس میں شرکت نہیں کی وہ اپنی غیرت کا لیول چیک کر لیں، نظریاتی کارکن بہرحال کسی پارٹی کا اثاثہ ہوتے ہیں اور ن لیگ کے نظریاتی کارکن بھی پارٹی کا اثاثہ ہیں جو کسی صورت نواز شریف کو مائنس نہیں کرسکتے، گوجرخان سے مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار راجہ جاوید اخلاص اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے آئے ہیں ، سروے میں عوام کا کہنا ہے کہ اس بار تو حلقہ این اے 58 سے ان کی ضمانت ضبط ہوگی کیونکہ انہوں نے شہر آکر چائے بسکٹ اور گپ شپ کے علاوہ کچھ نہیں کیا، جبکہ مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار برائے صوبائی اسمبلی چوہدری محمد ریاض اپنے مخالف امیدوار چوہدری جاوید کوثر کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں ہیں، ان کی برادری کا بڑا ووٹ بینک ہے، پرانے اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، جنہوں نے مسلم لیگ ن کے نظریاتی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بھی دور میں مسلم لیگ ن سے وفاداریاں تبدیل کرنے کو ترجیح نہیں دی، چوہدری ریاض سابق صوبائی وزیر رہ چکے ہیں، نوازشریف کے قریبی ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، چوہدری محمد ریاض کو پارٹی ووٹ سے ہٹ کر برادری اور ہمدردی کا ووٹ ملے گا

کیونکہ 2013 ؁ء کے الیکشن میں چوہدری محمد ریاض کو پارٹی رہنماؤں کی جانب سے یکسر نظرانداز کیا گیا تھا ، گزشتہ روز میاں نواز شریف اور مریم نواز اڈیالہ جیل منتقل ہو گئے ہیں، جن کے فیصلے اور سزا کے باعث مسلم لیگ ن کا گراف ملک بھر کی طرح حلقہ این اے 58میں بھی بہت نیچے چلا گیا ہے، لوگ مقامی قیادت سے تو نالاں تھے ہی مگر اس حالیہ فیصلے سے بھی شدید متنفر ہوئے ہیں، میرے تجزیے کے مطابق ن لیگ بطور پارٹی حلقہ این اے 58 سے باہر ہوچکی ہے، شخصیات کی ووٹ ضرور پڑے گی مگرصرف صوبائی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا، قومی اسمبلی کی نشست پر راجہ پرویز اشرف اور چوہدری محمد عظیم کے درمیان مقابلہ ہونا ہے، حلقہ این اے 58 چونکہ کلرسیداں کی چند یونین کونسلز پر بھی مشتمل ہے اس لئے کلرسیداں سے لے کر دولتالہ تک دونوں پارٹیوں کے کارکن ، عہدیدار اور امیدوار سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں، عوامی رائے کے مطابق اس وقت تک راجہ پرویز اشرف کی پوزیشن بدستور بہتر ہے، کیونکہ راجہ پرویزاشرف کو پارٹی سے ہٹ کر شخصیت کا ووٹ ملے گا ، ان کی کارکردگی کا ووٹ ملے گا

، تحریک انصاف کے امیدوار پانچ سال تک تحصیل ناظم رہے اور گوجرخان کو کچھ نہ دے سکے، اس باعث عوام کو ان سے توقع نہیں البتہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی باتوں پر عوام کسی حد تک یقین کرنے کو تیار ہیں کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کے خواہشمند ہیں انہیں ضرور موقع دینا چاہیے،نوجوان اور تبدیلی کے خواہشمند خاموش طبیعت کے لوگوں کا ووٹ بینک تحریک انصاف کے حصے میں آئے گاجبکہ ایم ایم اے ، تحریک لبیک پاکستان، تحریک لبیک اسلام بھی ووٹ تقسیم کریں گے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی حریف پارٹیاں ن لیگ ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو چت کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں