نمبرز پورے ہونے کے باوجود لانگ مارچ کیوں؟

اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف عدم اعتمادلانے کی باتیں کر رہی ہیں اور وہ اس کے لیے کافی پرجوش بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ تمام جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور آئے روز حکومتی اتحادیوں کے پاس جا کر انہیں منانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کسی طرح بلکہ کسی بھی قیمت پر مان جائیں اور وہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لا کر اسے کامیاب کر یں۔ اپوزیشن جماعتیں ایک طویل عرصہ سے دعوے کر رہی ہیں کہ وہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لا رہے ہیں، وزیراعظم گھر چلے جائیں گے لیکن اپوزیشن جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ آپس میں ہی عدم اعتماد کا شکار ہیں تو حکومت کے خلاف کیسے متحد ہو کر عدم اعتماد لائیں گے۔ کسی نقطے پر تو یہ متفق ہوتے نہیں ہیں تو اس تحریک کو کیسے کامیاب کر پائیں گے؟ یہ صرف اس بات پر متحد ہیں کہ حکومت کو گھر جانا چاہیے اور ہمیں اقتدار ملنا چاہیے اس کے علاوہ کسی بھی مسئلے پر ان کا اتفاق نہیں ہوتا۔ سب جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں جنہیں مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلے کرتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ان کی بنتی ہی نہیں ہے تو پھر عدم اعتماد کیونکر کامیاب ہو گی۔ صرف لانگ مارچ کو ہی لے لیجیے، پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ 27فروری کو شروع ہوا جو ابھی تک رواں دواں ہے۔ یہ لانگ مارچ کراچی سے شروع ہوا جو تادم تحریر سندھ میں ہی موجود ہے، اس کی آخری منزل اسلام آباد ہے۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے لانگ مارچ کے لیے 23مارچ کی تاریخ کا اعلان کر رکھا ہے، اس کے لیے بھی اب یہ جماعتیں کچھ خاص متحرک نظر نہیں آتیں۔ کیونکہ اب ان کی زیادہ توجہ عیادتوں اور ملاقاتوں پر ہے۔ اگر یہ الگ الگ لانگ مارچ کی بجائے اکٹھے لانگ مارچ کرتے تو کیا یہ زیادہ سود مند ثابت نہ ہوتا؟ یہاں سے ہی ان کی غیر سنجیدگی اور آپس کے بغض کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک تو ان کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہی نہیں بنتی اور دوسرا ان کا یہ نہایت غیر سنجیدہ رویہ ہے کہ بار بار ملک میں افراتفری پھیلا نے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پہلے پیپلز پارٹی لانگ مارچ کرتی ہوئی اسلام آباد پہنچے گی اور ظاہر اس کے نتیجے میں اسلام آباد کی سڑکیں اور کاروباری مراکز بند ہو جائیں گے، اس کے چند روز بعد پی ڈی ایم کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا اور پھر وہی پریشان کن صورتحال ہو گی۔ پھر سب یہ بھی جانتے ہیں کہ اس قسم کے لانگ مارچوں سے حکومت نہیں گرائی جا سکتی، نہ ہی اس طرح کوئی استعفیٰ دیتا ہے۔ اگر سب جماعتیں مل جل کر مؤثر حکمت عملی سے لانگ مارچ کریں تب تو کچھ امید کی جا سکتی ہے لیکن اس طرح اپنی اپنی جماعتوں کے چھوٹے چھوٹے قافلے لے کر اسلام آباد میں آکر بیٹھ جانا کسی طرح نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا۔ پی ڈی ایم کی جانب سے یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ہم پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کا اپنے اپنے شہروں میں استقبال کریں گے۔ لیکن اس کا انجام بھی جے یو آئی کے لانگ سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا جس میں اپوزیشن کی بڑی جماعتیں غائب ہو گئی تھیں اور مولانا فضل الرحمن کو حکومت کے مد مقابل تنہا چھوڑ دیا تھا، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ یہ جماعتیں پیپلز پارٹی کے ساتھ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گی اور کوئی قابل ذکر رہنما اس کے مارچ میں شریک نہیں ہو گا، زیادہ سے زیادہ مقامی کارکن یا مقامی رہنماؤں کو بھیج دیں گے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ انہوں نے وعدے کے مطابق استقبال نہیں کیاادھر اپوزیشن جماعتیں نمبرز پورے ہونے کی باتیں کررہی ہیں کہ ہمارے پاس عدم اعتماد کے لیے ارکان اسمبلی کی اتنی تعداد ہو گئی ہے کہ ہم باآسانی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لا سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ اس کے لیے انہیں حکومت کے اتحادیوں کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے بغیر ہی نمبرز پورے ہو گئے ہیں۔ دعوے کے مطابق پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی ہم سے رابطے میں ہیں اور عدم اعتماد میں ہمارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں، بلکہ کچھ وزراء بھی حکومت سے نالاں ہیں اور ٹاک شوز میں اپوزیشن کو برا بھلا کہنے کے بعد ہم سے فون پر بات کر کے کہتے ہیں کہ ہماری باتوں پر مت جانا ہم آپ کے ساتھ ہیں۔تو جب اپوزیشن جماعتیں اتنی پر امید ہیں کہ حکومت کے خلاف حکومت کے ارکان اسمبلی اور وزراء بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں تو پھر کس بات کا انتظار ہو رہا ہے؟ حکومت کے اتحادی تو تقریباً کھل کر سامنے آگئے ہیں اور انہوں نے وزیراعظم کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے، کچھ جماعتوں نے اپنی پالیسی واضح نہیں کی تو یہ کیسے اتنے پر امید ہو سکتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف خود کو تسلیاں دے رہے ہیں یا حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ورنہ اگر یہ نمبرز پورے ہونے میں اتنے ہی پر امید ہوتے تو پھر لانگ مارچ کیوں کرتے، پھر تو براہ راست حکومت کے خلاف عدم اعتماد لے آتے، لانگ مارچوں کی تکالیف سے خود بھی بچ جاتے اور عوام بھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں