213

نقد آرزو/ راجہ غلام قنبر

راقم اس قسم کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کی جس طرح اہل پنجاب اردو کیساتھ محبت کی۔ اہل زبان نہ ہونے کے باوجود اقبال،فیض،ساغر،ندیم احمد قاسمی، شہید محسن نقوی سمیت بیشمارشعراء ایسے ہیں کہ جن کے شعر اہل اردو بھی روز مرہ میں استعمال کرتے ہیں جو ان شعراء کا زبان پہ گرفت کا ثبوت ہے ۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور یقیناًتا ابد جاری رہے گا۔ہمارے خطہ پوٹھوہار کے فرزند محمد نصیر زندہ بھی اسی عظیم المرتبت کڑی کا ایک نامور حصہ ہیں۔ بلاشبہ ذہین و فطین لوگ ہی قوم کے معمار ہو سکتے ہیں ۔ اسی لیے محمد نصیر زندہ کا تعلق شعبہ تدریس سے ہے۔اور تدریسی فرائض کلر سیدا ں میں ادا کر رہے ہیں۔5.12.14.کی تاریخ کو ان کی تیسری کتاب ’نقد آرزو‘ زیور طباعت سے آراستہ ہوئی کہ ہم جیسوں کی ذہنی جلا کا باعث بنے اور ہماری علمی کم مائیگی کے کم کرنے میں مددگار ہو ۔محمد نصیر زندہ یہ کتاب نثرو شاعری دونوں پر مشتمل ہے ۔ راقم کا خیال ہے کہ اگر صرف ’’انتساب‘‘ اور ’’دیباچہ ‘‘ جو بعنوان ’’قطرہ‘‘تحریر کیا گیا وہ ہی صرف حصہ ہوتا تو پھر بھی اس کتاب کو مرکب نثرو شاعری کہنے میں کوئی امر مانع نہ ہوتا ۔نثر میں نصیر زندہ نے ’رباعی کی تکنیکی ساخت‘ اردو رباعی کی ساختیاتی توضیح‘ اوز ان رباعی اور تاریخ گوئی‘ کے عنوانات کے تحت سیر حاصل حصہ تحریر کیا ہے۔ رباعی کی تکنیکی ساخت میں انہوں نے اقسام رباعی پر پر مغز معلومات تحریر کی ہیں اور جہاں مثا ل کی ضرورت تھی وہاں فارسی کے عظیم شعراء کی رعبایات بطور مثال تحریر کیں اس وجہ سے فارسی ناآشنا بھی ان ادب پاروں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ نصیر زندہ نے فارسی کے استاد شعراء، عبداللہ انصاری ،مہستی گنجوہی ،حکیم عمر خیام ،بیدل، سلمان ساوجی ،سرمد کی رعبایات سے مثالیں دی ہیں جبکہ امام غزالی اور پیر نصیرالدین نصیر کی رباعی بھی بطور مثال بیان ہوئی ہے۔ نصیر زندہ نے 4مصرع کی شاعری میں ’’رباعی‘‘ اور ’’دوبیتی‘‘ کا فرق واضح کیا ۔ جو کہ راقم کیلئے نئی اور انتہائی اہم معلوما ت ہیں ۔ اسی طرح اردو میں ’’رباعی‘‘ کے حوالے سے جو نکات نصیر زندہ نے بیان کیئے وہ بھی خاصے کی شئے ہیں۔
نصیر زندہ نے انتہائی خوبصورتی سے رباعی کے اردو میں مقام کے حوالے معروضات پیش کیں۔ وہ عوامل بھی بیان کئے کہ کیوں ’’رباعی ‘‘ اردو میں وہ پذیرائی نہ پا سکی کہ جو ’’غزل‘‘ کو حاصل ہوئی نصیر زندہ نے ،غالب ،اقبال،جوش اور امجد حیدر آبادی کی دو بیتی اور رعبایات پر خوبصورت طائرانہ نظر ڈالی۔ اردو فارسی رباعی کے تقابل میں نصیر زندہ نے میردرد ،میر تقی میر ،غالب، ذوق ، مومن ،انیس، دبیر سمیت کل پچیس شعراء کی منتخب رعبایات تحریر کیں۔
جب قاری ’’اردو رباعی‘‘ کے متعلق ’’تحقیق زندہ ‘‘ پڑھ کر مایوسی کی جانب بڑھنے لگتا ہے تو ایسے میں وہ جب’’میر انیس کی رباعی نگاری ‘‘ کے ذیل میں نصیر زندہ کی نگارشات پڑھنا شروع کرتا ہے تو اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ اردو ادب سے متعلق ہے ۔ بقول نصیر زندہ جہاں میرا نیس کا ’’مرثیہ‘‘ عالمی ادب میں پیش کئیے جانے کے قابل ہے وہاں میر انیس کی ’’ رباعی‘‘ بھی اسی مرتبہ پر رکھی جانے کے قابل ہے ۔مثلا میر انیس نے ’’خالی برتن کے کھڑکنے‘‘ کو کس خوبصورت انداز میں رباعی بند کیا۔
عزت جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کوجا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغزثناء آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے
نصیر زندہ نے 20رعبایات میر انیس منتخب کر کے پیش کیں ۔ حصہ نثر میں راقم کے لیے جو انتہائی زیادہ معلوما ت والی بات ہے وہ ہے ’’تاریخ گوئی‘‘ بادشاہوں اورنوابین کے دور میں پیدائش و مرگ ، شادی بیاہ اور دیگر اہم ایام کی تاریخ شعر کی صورت میں بیان کی جاتی تھی۔ یہ بھی شاعر کی طرف سے ممدوح کی تعریف کا ایک مخصوص طریقہ ہے جواب کافی حد تک متروک ہو چکا ہے۔ ’’نقد آرزو‘‘میں نصیر زندہ نے 23 افراد کے حوالے سے مختلف ایام مثلا پیدائش ، وصال ، شہادت اور سہرہ بندی کی تواریخ نکالی ہیں جن میں شہید بے نظیر بھٹو ، پیر سید نصیر الدین نصیر ،سہرہ بندی معلم ذی قاری جناب حاجی صلاح الدین ،پروفیسر مصنف ثاقب اکبر،معروف کالم نگار طاہر یسین طاہر اور چوہدری عبدالخطیب کے جواں سال بھائی محمد حبیب شامل ہیں۔ محمد حبیب مرحوم کی تاریخ وفات یوں نکالی
سوزش ہے سر دماغ افسوس
جیتا ہے جگر میں داغ افسوس
یہ ٖغم ہے کہ گھر ہوا تاریک
آہ آہ بجھا چراغ افسوس(1434ہجری)
نصیر زندہ کی اس مجموعہ میں 62 رعبا یات شائع ہوئی ہیں جبکہ قطعات کی تعداد 4 ہے قارئین کے ذوق نظر ایک حمدیہ رباعی
گردوں پہ ستاروں سے اجالے ہوئے ہیں
یہ ذرے محمد(ص)کے اچھالے ہوئے ہیں
ہر روزنئی شان سے ہوتے ہیں طلوع
آغوش نبوت کے جو پالے ہوئے ہیں
رسولﷺ کے ذکر سے مزین رباعی کے بعد نصیر زندہ کی ’’منقبتی ‘‘رباعی
جی بھرتا ہے کب اس کاپیمانے سے
جو پیتا ہے علی ؑ کے میخانے سے
مٹ جاتی ہے تشنہ لبی دریا کی
آغوش بحریں اتر جانے سے
محترم نصیر زندہ نے اس تحقیقی کاوش کے سلسلہ میں 32 کتب و جرائد اردوو فارسی کو کھنگالا ۔یقیناًایسی ہی محنت شاقہ کے بعد ایسا گوہر مقصود حاصل ہوتا ہے ۔ خوبصورت سرورق کے ساتھ معیاری کاغذ پر ، املاء کی دو اغلاط کیساتھ یہ خوبصورت کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منصبہ شہور پر آئی ۔ البتہ راقم نے ’’ڈیزائنگ‘ میں کمی محسوس کی ہے جو ایسے علمی و معیاری نسخہ کو زیب نہیں دیتی۔
’’نقد آرزو‘‘ میں مصنف شاعر کا تعارف محترم المقام معلم جناب علی احمد نے تحریر کیا ہے۔ جناب علی احمد سے اکتساب فیض کا شرف راقم کو بھی حاصل ہے۔ جناب علی احمد’اقبالیات ‘‘ میں ایم۔ فل ہیں انہوں نے نصیر زندہ کو ’’محاورہ‘‘ کے بہترین استعمال پر سراہا ہے ذیل کی رباعی میں ’’ایڑی چوٹی کے زور‘‘ کے محاورہ کا استعمال دیکھیئے
چوٹی میں موتیا سجا یا اس نے
اونچی ایڑی سے قد بڑھایا اس نے
اک حشر سر بزم اٹھانے کے لئے
زورایڑی چوٹی کا لگایا اس نے
جناب علی احمد نے نصیر زندہ کے پہلے مجموعہ کلام ’’نقش تحریر‘‘ پر تبصرہ آراء دو معروف ادبی شخصیات رباعی گو شاعر مرحوم قمر رعینی اور علامہ حکیم سرو سہارنپوری کی تعریف کا ذکر بھی کیا ’’نقش تخیر‘‘ کی تعارف میں مرحوم قمر روعینی نے بات یوں ختم کی تھی۔
اللہ نے دی ہے نگۂ بینندہ
ہیں چرخ رباعی کے مۂ تابندہ
میں ان کو تہیہ دل سے دعا دیتا ہوں
زندہ رہیں تا دیر جناب زندہ{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں