نفس کے تقاضے

کسی غلہ فروش کے چند درہم ایک صوفی پر قرض ہو گئے۔ غلہ فروش ہر روز صوفی سے قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتا اور صوفی کو اچھی طرح ذلیل بھی کرتا۔ ایک دن صوفی کو اس کے ایک دوست نے کہا یہ غلہ فروش تمہیں رقم کے تقاضا میں روز ذلیل کرتا ہے اور تم ٹال مٹول کرتے رہتے ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اپنی یہ عادت بنا لی ہے۔ بہتر ہوتا کہ نفس کے تقاضے کو بھی آئندہ کل پر ٹال دیتے اور قرض کی مصیبت میں نہ پڑتے۔ حاصل کلام:وقتی پریشانی دور کرنے کے لیے قرض لینا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔(چوہدری ادیب‘کلرسیداں)

اپنا تبصرہ بھیجیں