پیارے قارئین!سماج میں رنگ و نسل اور حسب و نسب کے امتیاز کا رجحان غالب آتا ہے تو حسنِ سماج کے آئینہ پر زد پڑتی ہے اور کرچیاں بکھر کر رہ جاتی ہیں۔زندگی تو ایک مقدس امانت ہے۔
سماج کی خوبصورتی کا انحصار انسانی رویوں اور سوچ پر ہے۔تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو انسانی عقل و شعور کو اجاگر کرتا اور انسان کو مقام انسانیت سے آشنا کرتا ہے۔ایک ادیب لکھاری اور شاعر جس زاویہ خیال سے سماج میں پائی جانے والی کیفیات پر طائرانہ نگاہ ڈالتا ہے
تو ایسا محسوس کرتا ہے”نفرتوں کے عہد میں تلاش محبت“کا سفر جاری ہے۔کیا منفی رویوں اور منفی طرز فکر سے سماج کی خوبصورتی میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے؟یقینی طور پر ہر ایک کا جواب یہی ہو گا
کہ سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور بنیادیں غیر مستحکم ہوں گی۔اس کے تناظر میں ہر فرد کے مثبت کردار کی ضرورت ہے۔اگر سماج میں رہنے والے رنگ اور نسل کے روپ میں سوچیں گے تو نفرت کی ایسی لہر پیدا ہو گی جس کی لپیٹ میں سماج ہو گا اور نفرت کے کانٹوں سے دامن دل خراشوں کا شکار اور مقام انسانیت متاثر۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو انسانیت کو زوال اس وقت شروع ہوا جب انسان کے اندر غرور اور تکبر نے جنم لیا۔سرور عالم حضرت محمدؐ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر انسانیت کو احترام کا درس دیا۔اس کی روشنی میں آگ کے لوگوں کو بھی خاندان اور نسلی تعصبات کے خول سے نکل کر زندہ رہنا ہو گا۔
ضرورت فقط اس بات کی ہے کہ تعلیم کے زیور سے نوجوان نسل کو آراستہ کیا جائے اور ترقی کی راہیں تلاش کی جائیں۔سماج کی بنیادوں کو اگر مضبوط کیا جا سکتا ہے تو نسل اور خاندانی برتری کے رویوں کو ترک کرنا ہو گا۔اسلام کی عالمگیر تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے زندگی کی بنیادوں کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
مثبت سوچ اور رویوں سے نہ صرف سماج کی بنیادوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے بلکہ انسانی اور لسانی رشتے بھی مضبوط ہو پاتے ہیں۔ہر قسم کی نفرت انگیز باتوں کو بالائیطاق رکھتے ہوئے سماج میں الفت کے سمن زار قائم رہنے چاہییں۔اسی میں انسانیت کی فلاح اور بہتری ہے۔زندگی کا حسن تو مل جل کر رہنے اور اچھی گفتگو کے فلسفہ میں ہے۔ماضی آئینوں میں جھانک کر دیکھیں تو انسانیت اس وقت بکھر کر رہ گئی جب ادنٰی اور اعلا کی تفریق پیدا ہوئی۔
حسنِ معاشرت کا زیور بھی تو حسن اخلاق اور اقدار اسلامی ہیں۔علم چونکہ ایک بہت بڑی دولت ہے۔اس لیے علم کی روشنی سے دل کے گوشوں کو روشن کیا جائے اور ہر طرز کے منفی رویوں سے اجتناب کرتے ہوئے تعمیری کردار ادا کرنے کی سعی کی جائے۔رویوں اور طرز اسلوب سے نہ صرف دوسروں کے دل جیتے جا سکتے ہیں بلکہ نفرت کی دیواریں بھی گرائی جا سکتی ہیں۔
انسانیت کا وقار تو حسن خلق اور مثبت طرز اسلوب سے بلند ہوتا ہے۔انسانیت کا وقار تو اچھی باتوں اور اچھے رویوں سے بہتر ہوتا ہے۔
اگر کوئی برتری ہے تو صرف اور صرف اللہ کریم کا خوف رکھنے والوں کو ہے۔مقام شوق سے انسان نہ صرف کھوئی ہوئی منزل پا لیتا ہے بلکہ سماج کی بنیادوں کو استحکام بھی ملتا ہے۔
ضرورت فقط تعلیمی شعور اور فکر کو اجاگر کرنے کی ہے۔اس ضمن میں تعلیمی اداروں اور درسگاہوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔معلم کا کمرہ جماعت میں کردار اور اہل قلم کا قلمی کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔مساجد اور درسگاہوں کا سماج کی تعمیر میں بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔اس لیے سماج کے افراد کے دلوں میں نفرت کی بجائے الفت اور محبت کے بیج بونے کی ضرورت ہے۔تاکہ محبتوں کے پھول کھل سکیں اور الفت کے تصور کو فروغ مل سکے۔
نوجوان نسل کا سماج کی تعمیر اور استحکام کے لیے کردار ضروری ہے۔مثبت سوچ اور فکر سے احترام آدمیت کی روایت فروغ پاتی ہے۔ہر قسم کی منفی سوچ کی حوصلہ شکنی سے سماج میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔کسی بھی قوم اور ملک کی تعمیروترقی کا دارومدار نہ صرف اچھے رویوں پر ہوتا ہے بلکہ تعلیمی ماحول پر بھی ہوتا ہے۔
عصر نو کے تقاضوں کے مطابق یکساں سلوک کی روایت کو فروغ دیا جائے اور اخلاقیات سے حسن معاشرت کی رعنائی میں اضافہ کیا جائے۔ جب نفرت اور تعصبات کی ہوائیں چلتی رہیں گی اور انسان گروہوں میں تقسیم ہوتے رہیں گے تو انسان تلاش محبت کی سرگرداں رہیں گے۔اس لیے عصر حاضر کے اصولوں اور تعلیمات اسلامی کی روشنی میں زندہ رہنے کی ضرورت ہے۔