نظریہ پاکستان /محمد حسین

پاکستان کا قیام ایک نظریے کے تحت عمل میں آیا نظریہ پاکستان کی حیثیت پاکستان کے وجود میں روح کی مانند ہے جس کے بغیر پاکستان کے قیام کا کو ئی تصورنہیں کیا جا سکتا تحریک پاکستان کے دوران مسلمان ہند ایک نظریے کے تحت آزاد مسلمان مملکت کے

قیام کی جہدوجہد کر رہے تھے اب ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کو تلاش کریں اور یہ فیصلہ کریں کہ نظریہ پاکستان کی کوئی حیثیت بھی ہے علامہ اقبال نے برصغیر کے مسئلے کے لیے ہندوستان کی تقسیم کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا مسلمانان ہند کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ ورانہ مسئلے کے مستقل تصفیے کے لیے برطانوی ہندؤں کی از تقسیم کی جائے آپ نے فرمایا ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے سو ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کر سکے 30دسمبر1916کو لکھنو میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کے مسلمان دنیا کی ہر قوم سے زیادہ جمہوری قوم ہے حتی کہ اپنے مزہبی معاملات میں بھی۔ یکم فروری 1943کو اسمائیل کالج کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ اسلام مسلمانوں کی زندگی بشمول سماجی ومعاشرتی ،ثقافتی ،سیاسی اور معاشی پہلوؤں کے لئے رہنمائی فراہم کرتا ہے پاکستان کی صورت میں ہم ایک ایسی ریاست قائم کریں گے جو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلائی جائے گی اس کے ثقافتی سیاسی اور اقتصادی نظام کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھی جائے گی اس تصور سے غیر مسلموں کو خائف نہ ہونا چاہیے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں وہ دور حاضر کے نام جمہوری پارلیمانی یا کانگرس طرز کی حکومت نہیں چاہیے بلکہ ہم حقیقی جموریت چاہتے ہیں جو اسلام کے مطابق ہو قائداعظم کے اس بیان مین اقبال کے اسلامی جمہوری تصویر کی جھلک نظر آتی ہے 24نومبر1945کو مردان میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا پاکستان کے قیام کا مطلب ایسی آزادمسلم ریاست قائم کرنا ہے جہاں مسلمان مسلم آئیڈیالوجی کو نافذ کر سکیں موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے ہماری ملت کو مستقبل قریب میں ایک آزادانہ راہ عمل اختیار کرنی پڑے گی اور آزادانہ سیاسی راہ عمل ایک مقصد پر مرکوز کرنا ہو گی ہمیں فرقہ بندی اور نفسانیت کی قیود سے آزاد ہو نا پڑے گا اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال کو اسلامی اقدار میں ڈھال کر وا دی اغراض سے جان چھڑانا ہو گی اور اس نصب کے حصول کی خاطر ہمیں مادیت زدہ مغربی جموریت سے اسلامی جموریت کی طرف آنا ہو گا اگر آج ہم اپنی نظریں اسلام پر موکوز کر دیں اور ہم اپنی پراگندہ قوتوں کو ازسر نو جمع کر لیں تو ہم کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر سکیں یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو ہمیں تباہی وبربادی سے بچا کر ہماری تقدیر کو بدل سکتا ہے۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں