راجہ طاہر محمود
کسی بھی سیاسی جماعت کا سب سے بڑا سرمایہ اس کے نظریاتی کارکن ہوتے ہیں جن پر وہ فخر کرتی ہیں اور ایسے لوگ اپنی جماعت کے لئے وہ سرمایہ ہوتے ہیں جن کو مشکل حالات میں پارٹی کا دفاع کرنا ہوتا ہے نظریاتی لو گ اب رفتہ رفتہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں یا کیے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ اب مارکیٹ چمچہ گیر اور خوشامدی لوگ میں آ گئے ہیں مگر حاکم وقت کی سیاسی بصیرت میں کمی ہونے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے ان کو ابھر کر سامنے آنے کا بھر پور موقع ملا ہے اس کی بنیادی وجہ سیاست کے میدان میں حاکم وقت کا نابلد اور تعریفی ہونا بھی ہے سابق حکمران جن میں سے اکثر اب اس دنیا سے گزر چکے ہیں ان میں سے اکثر خوشامد کو اپنے لئے اور ملک کو ملت کے لئے وبال سمجھتے تھے اور ان کو اچھے اور وفادار لوگوں کی پرکھ ہوتی تھی جس کی وجہ سے چمچہ گیر اور خوشامدی لوگوں کی ان کے ہاں کوئی خاص پزیرائی نہیں ہوتی تھی جس کی وجہ سے یہ لوگ ناکام و نامراد ہی رہتے تھے مگر اب جو کہ اکیسویں صدی چل رہی ہے اس میں حاکم بھی کچھ اپنے لئے تعریف سننا چاہتے ہیں بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ وہ اپنے آ پ کو نرالی شئے سمجھتے ہیں تو کوئی بعید نہیں اس لئے اب ان وفاداروں کی جگہ لے لی ہے چمچہ گیری نے اور اب تو یہ چمچہ گیری اتنی عام ہو گئی ہے کہ بیچارے وفاداروں کو بھی اب حالات کے آگے جھکنا پڑھ رہا ہے اور وہ بھی کچھ کچھ خوشامدی ہوتے جا رہے ہیں ہاں مگر کچھ اب بھی ایسے ہیں جو ڈٹے ہوئے ہیں لیکن کب تک ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب نہیں دیا جا سکتا ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خوشامدی اور چمچہ گیر لوگ کھبی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے تھے اگر سوشل میڈیا اتنا عام نہ ہوتا‘ ہو سکتا ہے وہ ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں لیکن اس میں ایک بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر سوشل میڈیا عام ہوا اور ساتھ میں چمچہ گیر عام ہو ئے تو وفاداروں کی وفاداریاں کیوں اندھیرے میں ڈوب گئی ان پر کسی کی نظر کیوں نہیں پڑ رہی ۔سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی ہر سیاسی جماعت کا کارکن اپنے لیڈر کو خوش کرنے کیلئے چمچہ گیری میں مصروف ہے
اج ایک سوال بہت ہی اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ سیاسی کارکنان نے چمچہ گیری کا راستہ کیوں اپنایا؟ شاید اس لئے کہ آج کے سیاسی رہنماء بھی ان سیاسی کارکنان کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کی تعریفیں کرتے ہیں، سیاسی چمچوں کی تعداد میں روز بروز اضافے کی وجہ نظریاتی سیاست خاتمے کے قریب ہے ۔ ایک وقت تھا جب سیاسی جماعتوں میں کارکنان کو بولنے کی اجازت تھی، سیاسی کارکنان اپنا نقطہ نظر پیش کرتے تھے، پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے تھے یہاں تک کہ اپنے قائدین سے بھی اختلاف کرتے تھے اور ایسے ہی سیاسی کارکنان کو نظریاتی کارکنان کہا جاتا تھا جو اپنے فائدے یا نقصان کا نہیں سوچتے تھے بلکہ اپنی قیادت اور اپنی سیاسی جماعت کے فائدے اور نقصان کے بارے میں سوچتے ہیں۔نظریاتی سیاست کا خاتمے کی ایک وجہ یہ بھی کہ جب سیاسی کارکنان نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کیلئے جیلیں کاٹیں، قربانیاں دیں، یہاں تک کہ جانیں بھی نچھاور کردیں ان کو یا ان کے لواحقین کو عزت تک نہ ملی، جیلیں کاٹنے والوں اور قربانیاں دینے والے سے زیادہ اہمیت ان کی ہے جو تعریفوں کے پل باندھ سکتے ہوں۔ایک غریب نظریاتی کارکن اپنی پارٹی کو اپنی زندگی کے 30 سال دیتا ہے، پیسہ بھی خرچ کرتا ہے، ہر قسم کی قربانیاں بھی دیتا ہے مگر جب اس کو نوازنے کا وقت آتا ہے تو اس نظریاتی کارکن کو نظرانداز کردیا جاتا ہے اور فوقیت دی جاتی ہے اس امیر کبیر لوگوں کو جو چند ماہ پہلے دوسری جماعت سے آیا ہوتا ہے، شاید سیاسی رہنماؤں کا یہی رویہ نظریاتی سیاست کے خاتمے کا باعث بنتا جارہا ہے۔یہ سچ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں میں نظریات کو ختم کیا جارہا ہے، اس وقت پاکستان کی سیاست میں پیسے کی عمل داری زیادہ ہوگئی ہے، اج کوئی بھی سیاسی رہنماء کسی بھی نظریاتی کارکن کی خدمات کو نہیں پوچھتا، بلکہ پوچھتا ہے تو کتبی تعریف کی کتنے لائیک کیے کتنی پوسٹیں کی کتنے کمنٹ ملے مطلب اب سب کچھ سوشل لائز ہوگیا ہے دوسرا آج کل سیاسی جماعتوں میں نظریاتی کارکنوں کو پس پشت ڈال کر ان لوگوں کی قدر زیادہ ہوتی ہے جن کے وسائل زیادہ ہوتے ہیں پی ٹی آئی کے چئیرمین کے ان الفاظ میں بہت حد تک سچائی چھپی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ سینٹ کے ایک ٹکٹ کی قیمت چالیس کروڑ تک بھی لوگ دینے کو تیار ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو سیاست کی اس گندی ریت کو شاید ہی کوئی بدل سکے اور شاید ہی کوئی غریب سیاسی کارکن کھبی اپنی قربانی اور نظریات کی وجہ سے سینٹ کا الیکشن لڑ سکے اور جیت سکے اس بارے میں مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہے کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ جناب سینٹ تو بنا ہی اپر کلاس لوگوں کے لئے ہے جو اپنی دولت کی نمائش سے یہاں پر آ کر جلواہ افروز ہو سکتے ہیں رہا سوال پاکستان کا یا یہاں کے عوام کا تو یہ جناب جنھوں نے کروڑوں دیے ہونگے وہ کیا پاکستان کا سوچیں گے
138