نظریاتی کارکن سیاسی جماعتوں کا سرمایہ

عبدالجبار چوہدری
؂چیئرمین یونین کونسل لوہدرہ مخلص انتہائی محنتی سیاسی ورکر نوید بھٹی کا بیان پنڈی پوسٹ کی گزشتہ اشاعت میں شائع ہوا برملا اظہار جرات رکھنے والے سیاسی کارکن کے الفاظ نے سکوت سمندر کی سطح پر ارتقاش پیدا کیا جو لوگ وقت کی نبض پہ ہاتھ رکھتے ہیں بروقت تشخیص بھی وہی کرتے ہیں نوید بھٹی پریکٹیکل اپروچ رکھنے والے سیاسی کارکن ہیں جنھوں نے مسلم لیگ کے سینئر رہنما اور این اے باون سے ممبر قومی اسمبلی سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے نوٹس میں یہ بات لائی کہ پرانے مسلم لیگ کے سیاسی کارکنوں کو سائید لائن کر کے کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی جو لوگ نظریاتی ہتھیار سے لیس ہوں اخلاص کی دولت سے مالا مال ہوں وہی کارکن مشکل وقت میں کام آتے ہیں اور یہاں تک کہ جان تک بھی قربان کر دیتے ہیں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے قومی سیاسی افق پر جو نیا بیانیہ دیا ہے اس کے لیے تو ایسے کارکن درکار ہیں ڈرائنگ روم کی ٹھنڈی اور گرم ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے قائدین کھانے کی بھری ڈشوں سے انصاف کرتے کارکنان کبھی بھی اس نئے بیانیہ کا ہراول دستہ نہیں بن سکتے مخدوم جاوید ہاشمی جیسے دبنگ نڈر اور بے لاگ اظہار کرنے والے کارکن کی میاں نواز شریف کی طرف سے پذیرائی اسی نئی جد وجہد کی پہلی کڑی ہے مسلم لیگ کے قائد آئندہ اپنے ورکر کے اخلاص اور جماعت کی مقبولیت کے بل بوتے پر حکمرانی کرنے کی تیاری کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں یونین کونسل لوہدرہ کی ہمیشہ سے خوش قسمتی رہی ہے یہاں کہ چیئرمین اور ناظم کی کرسی پر جرات مند آدمی ہی ترجمان رہے جنھوں نے حلقے کی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کیا اور صف اول کے قائدین سے براہ راست مراسم رکھے ووٹ کی طاقت کو منوایا اگر تن تنہا بھی لڑنا پڑا تو حق بات کی خاطر اسے بھی گریز نہ کیا ترقیاتی کاموں کی بات ہو یا کسی مظلوم کی حمایت ہمیشہ کھل کر سامنے آنے میں کبھی بھی تاٗمل سے کام نہ لیا حلقے کی سیاست کے حوالے سے نوید بھٹی کا اظہار بہت ہی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے کئی مطالب بھی اخذ کیے جاسکتے ہیں ذات پر کیچڑ بھی اچھالا جا سکتا ہے انتقامی کاروائی بعید از قیاس نہیں اور سیاسی مستقبل کو داؤ پر لگانے پر والی بات بھی درست لگتی ہے ان سب خطروں کے باوجود نوید بھٹی جیسے مخلص سیاسی ورکرز کا اپنے پارٹی قائدین کو مشورہ دینا بلا شبہ بہت بڑا کام ہے یہ ہی نہیں اب اس کا م کو آگے بڑھانا اور اسے خاطر خواہ نتیجے تک لے جانا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے وقت ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ نوید بھٹی نے جس علم کو بلند کیا ہے اس کو کب تک تھامے رکھتے ہیں اور کیا اور بھی علم بردار بھی اس جد وجہد کا حصہ بنتے ہیں اس کوشش کو عزیمت کی راہ کہا جاتا ہے اس راہ عزیمت پہ چلنے والوں کو بہت سے ستم سہنا پڑتے ہیں تحریک بھی راہ عزیمت پیکروں کو ہی یاد رکھتی ہے
جس دھج سے کوئی مقتل گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں