نظام کی تبدیلی ناگزیر کیوں ؟

عبدالستار نیازی
2013ء کے جنوری کی بات ہے کہ خون جما دینے والی اسلام آباد کی سردی اور بارش میں ایک جماعت کے کارکنوں نے اپنے قائدین کے ہمراہ ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا، مری کے نزدیک ہونے کے باعث جنوری کی سردی کچھ اور قیامت ڈھا رہی تھی، اوپر سے دھرنے کے شرکاء کا امتحان اس وقت اور زیادہ ہوگیا جب اس سردی میں بارش نے اپنا حصہ شامل کیا ، یوں لگا جیسے خدا ئے برحق نے اس دھرنے کے شرکاء کو آزمانے کیلئے بارش کو اُتارا ہے، مگر دھرنے کے شرکاء ٹس سے مس نہ ہوئے اور اپنی جگہ پر ڈٹے رہے ، اگر پاکستانی قوم کو یاد ہو تو وہ دھرنا ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے دیا تھا، اگر عوام بھول نہ گئی ہوتو وہ دھرنا انتخابی اصلاحات کیلئے تھا ، اوراگر پاکستانی عوام میں کچھ لوگ یادداشت کیلئے بادام کھاتے ہوں تو انہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ اس دھرنے کو ختم کرنے کیلئے اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے ایک معاہدہ بھی کیا تھا

، پھر یوں ہوا کہ تین چار اجلاس کے بعد وہ معاہدہ اس طرح ختم ہوگیا جیسے کہ میثاق جمہوریت مابین بینظیر بھٹو و نواز شریف، یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکمران جماعت کے سابق صدر،پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف آئین کے آرٹیکل 62/63 کے تحت نااہل ہوئے ہیں اور ان کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا ہے2013 ؁ء کے دھرنے میں 62/63 کا شعور ڈاکٹر طاہرالقادری نے عوام کو دیا تھا جس کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی، آئین کے ان آرٹیکل کے تحت چور، کرپٹ ، جھوٹا، مکار اور غدار وطن شخص پاکستان کی پارلیمنٹ کا ممبر نہیں ہوسکتا، اس 62/63 پر پاکستان کی پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کتنا عمل ہوتاہے ؟ ’’آج کا سوال یہ ہے‘‘۔ پاکستان میں آمریت کے بعد جمہوریت نے اب 2018 ؁ء میں اپنے دس سال مکمل کئے ہیں، 2008 ؁ء کے الیکشن میں ’’انھے واہ‘‘ عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا کیونکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد عوام کے دل پیپلز پارٹی کی طرف مائل تھے اور عوام مشرف کو گالیاں دیتے تھے، 2008 ؁ء سے لے کر 2013 ؁ء تک حکومت کیساتھ بیٹھی ن لیگ ، ایم کیو ایم، اے این پی ، ق لیگ نے انتخابی اصلاحات کیا کرنی تھیں اپنی تجوریاں بھرتے رہے ، آخری دن بھی بینک کھلے رکھ کر لوٹ مار کی گئی جس کا احتساب 5سال گزرنے کے بعد بھی نیب جیسا آزاد و خود مختار ادارہ نہ کر سکا، اس کے بعد پیپلز پارٹی اور زرداری کو گالیاں دینے والی عوام نے سوچا کہ دونوں بھائی جس انداز میں تقریریں کررہے ہیں

انہوں نے ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دینی ہے، ایک ہوا چلی اور وہ مسلم لیگ ن کے حق میں چلتی چلی گئی، دھاندلی کا عنصر اس الیکشن میں بہرحال موجود تھا جس کا ثبوت بھی سپریم کورٹ کے احکامات پر الیکشن کمیشن کی چھان بین سے مل گیا، 2013 ؁ء میں جیسے تیسے کر کے دو تہائی اکثریت سے مسلم لیگ ن نے حکومت بنا لی ، مسلم لیگ ن کی حکومت اچھی بھلی شروع ہوئی تھی کہ ایک بار پھر دھرنا پارٹی نے ڈی چوک میں ڈیرے ڈال لئے، اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی نے حکومت کا ساتھ نہ چھوڑا اور دھرنے والوں کو لالی پاپ دے کر گھر بھیج دیا، اس دھرنے میں ملک کا کتنا نقصان ہوا اس کے کسی کو کیا لینا دینا ؟ دھرنے کے بعد حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ اوپر سے پانامہ کا ہنگامہ سر آکر بولنے لگا، سپریم کورٹ نے ایکشن لے لیا اور پھر 2016 ؁ء میں نواز شریف نااہل ہوگئے، اس کے بعد سے اب تک ایک سال ہونے کو ہے عجیب کیفیت کا شکار پاکستانی قوم کو سمجھ نہیں آرہی کہ غلط کون ہے اور صحیح کون ؟2008 ؁ء میں پیپلز پارٹی کی ہوا چلی تھی

، 2013 ؁ء میں ن لیگ کی ہوا چلی تھی، 2018 ؁ء میں تحریک انصاف کی ہوا چلی ہے ،’’ لوٹا لوٹا کردی نی میں آپے لوٹا ہوئی ‘‘ وہی جو ق لیگ اور آمریت کا حصہ تھے وہ پیپلز پارٹی میں چلے گئے،وہی جو پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ تھے وہ ن لیگ میں چلے گئے، وہی جو ن لیگ حکومت کا حصہ تھے وہ اب تحریک انصاف میں آگئے، اس سارے عمل میں عوام کو کیا ملا ’’ڈڈوں ‘‘ ۔ انتخابی اصلاحات کے نام پر تقریریں کرنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری 5سال کے دوران بیشتر وقت بیرون ملک گزار کر اب ’’نیا سیاسی اتحاد بنانے‘‘واپس آرہے ہیں ، گزشتہ 10سالوں میں انتخابی اصلاحات نہ ہونے کے باعث وہی چور ، لٹیرے ، ڈاکو ، رہزن ، کرپٹ ، غدار پھر اسمبلیوں میں جا بیٹھیں گے، چونکہ پاکستان تحریک انصاف کیساتھ بھی وہی لوگ آ آ کر مل رہے ہیں

جو درج بالاخصوصیات کے مالک ہیں اس لئے تحریک انصاف کو انتخابی اصلاحات سے لینا دینا نہیں اور نہ انہوں نے ان 5سالوں میں پانامہ کی طرح انتخابی اصلاحات کی جانب کوئی قابل فخر اقدام اٹھایا ہے، انتخابی اصلاحات ہو جائیں گی تو تحریک انصاف میں شامل ہونیوالے افراد کدھر جائیں گے ؟ جیتنے والے گھوڑے ہر پارٹی کو درکار ہوتے ہیں پی ٹی آئی کارکنان و قائدین کی جانب سے مشہور ہے کہ لیڈر کرپٹ نہ ہوتو نیچے کرپشن نہیں ہوتی، تو جناب اس ضمن میں عرض ہے کہ جو ایکسپرٹ/تجربہ کار ہوتے ہیں وہ سمجھنے کاموقع ہی نہیں دیتے کہ کرپشن کہتے کسے ہیں اور کرتے کیسے ہیں؟ جو سالہا سال سے نسل درنسل کرپشن کرکے اپنے 5سال سیدھے کرتے آئے ہیں انہوں نے اس قدر تجربہ حاصل کررکھا ہے کہ عمران خان کو چکمہ دینا ان کیلئے معمول کی بات ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں