تحریر: حذیفہ اشرف
سوشل میڈیا کے طاقتور ترین لوگ پچھلے کچھ عرصے سے اس کوشش میں ہیں کہ شاید کسی طرح اس ملک کا نظام بدل جائے، مگر افسوس کہ نظام آج بھی وہی ہے، جو کل تھا، اور شاید کل بھی یہی رہے گا۔یہ حقیقت ہے کہ نہ سوشل میڈیا کی چیخ و پکار سے کچھ بدلا، نہ احتجاجوں اور نعروں سے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی شخص اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، کوئی احتجاج میں مارا جاتا ہے، کوئی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے — لیکن نظام اپنی جگہ قائم رہتا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
26 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کا اسلام آباد میں مارچ تھا۔ دعویٰ کیا گیا کہ مظاہرین پر فائرنگ ہوئی، لوگ مارے گئے۔ مگر کیا نظام رُکا؟ نہیں۔اسی طرح آج ٹی ایل پی کے ساتھ بھی وہی رویہ برتا جا رہا ہے۔ طاقتوروں کے لیے قانون نرم ہے، کمزور کے لیے فولاد۔ امیر کے مقدمے محض کاغذی کارروائی ہوتے ہیں، جبکہ غریب برسوں عدالتوں کے چکر کاٹتا رہتا ہے۔ یہی وہ تلخ حقیقت ہے جسے ہم سب جانتے ہیں مگر ماننا نہیں چاہتے۔ہر سانحے کے بعد ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے —“ہم اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔”بس بات یہی تک رہ جاتی ہے۔ کوئی عملی قدم نہیں، کوئی تبدیلی نہیں۔ مذمت کا مطلب بس چند لفظوں کا استعمال رہ گیا ہے۔ نظام ہر بار اپنی رٹ دوبارہ قائم کر لیتا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ نظام صرف الفاظ سے نہیں، عمل سے بدلتے ہیں۔جلیاں والا باغ کے واقعے کے بعد نظام کا ایک نیا رخ سامنے آیا۔کیںوں لوگ سنجیدہ تھے واقعے عوام کے لیے کر رہے تھے 1946 میں کلکتہ کے فسادات نے برصغیر کی تقسیم کی راہ ہموار کی۔مگر یہاں، اس خطے میں، نظام کو کوئی چیلنج نہیں کر سکا کیونکہ یہاں ہر ادارہ ایک پیج پر ہے — اور جب تمام ادارے ایک صف میں کھڑے ہوں، تو تبدیلی صرف خواب رہ جاتی ہے۔نظام اس لیے نہیں چلتا کہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ سب اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔پشتون، پنجابی، سندھی، بلوچ — سب ایک ہی زنجیر میں بندھے ہیں، صرف چہروں کی تبدیلی ہوتی ہے، نظام وہی رہتا ہے۔نئے چہرے لائے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے “یہ نظام کے خلاف بولیں گے”، مگر وہ بھی اسی دروازے کے پیداوار نکلتے ہیں جسے ہم “گیٹ نمبر چار” کہتے ہیں۔چاہے کوئی وفاقی اجلاس میں شریک ہو یا نہ ہو — فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اصل میں “نظام” شریک ہوتا ہے۔ ایک اور پشتون بھی جو کہتا تھا یہاں ان رہنا منظور نہیں مگر اب وہ نظر ہی نہیں ان کو یہی کہنا چاہتا سرکار نظام کو بھی یہ منظور نہیں کہ کوئی منظور اٹھ کے نظام کو بولے میرے علاقے نکلو کسی بھی ملک میں کالے کوٹ والوں کا رول بہت اہم سمجھا جاتا ہے مگر وہ کیا بولیں ان کے کام بھی کالے ہیں اگر واقعی ہم اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے حقوق کے لیے نہیں بلکہ انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔جب تک ہم تقسیم رہیں گے، پارٹیوں میں بٹے رہیں گے، زبان، قومیت یا فرقے کے نام پر لڑتے رہیں گے — نظام ویسے ہی چلے گا۔تبدیلی صرف باتوں سے نہیں آتی۔عمل چاہیے، قربانی چاہیے، اتحاد چاہیے۔دنیا کے ہر ملک میں ایک نظام ہوتا ہے، مگر وہاں عوام اور اداروں کے درمیان توازن بھی ہوتا ہے۔یہاں توازن نہیں، بس طاقت ہے — اور طاقت ہمیشہ نظام کے ہاتھ میں ہے۔آخر میں یہی کہوں گا کہیہ نظام یقیناً میرے رب کا ہے، مگر اس زمین پر انسان کو نائب بنا کر بھیجا گیا ہے۔اللہ نے انسان کو آزادی دی ہے تاکہ وہ حق اور باطل میں تمیز کر سکے، اپنی راہ خود چن سکے۔اگر ہم صرف یہ کہہ کر بیٹھ جائیں کہ “یہ سب اللہ کا نظام ہے” تو پھر جزا و سزا کا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے۔اس لیے باتوں سے نہیں، عمل سے ثابت کریں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ورنہ یقین مانیں —یہ نظام یوں ہی چلے گا، جیسے برسوں سے چلتا آیا ہے۔
کلرسیداں(نمائندہ پنڈی پوسٹ)راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں میں استاد نے طالب علم کو بدترین تشدد…
سہالہ (نمائندہ پنڈی پوسٹ)ضلعی انتظامیہ اسلام آباد کا ماحولیاتی آلودگی کا باعث پلاسٹک بیگز کے…
راولپنڈی(نمائندہ پنڈی پوسٹ) روات پولیس کی کارروائی، معروف منشیات فروش حافظ تیمور آف ڈھوک نگیال…
راولپنڈی (پنڈی پوسٹ نیوز) سکولز ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے میٹرک کے سالانہ امتحانات میں ناقص…
راولپنڈی (پنڈی پوسٹ نیوز) الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے تحت سکالرشپ پانے والے غزہ کے فلسطینی…