نشہ اس وقت معاشرے کے لیے سرطان کی آخری سٹج یعنی خطرناک ترین سطح پر ہے۔کسی خاندان کا اگر فرد واحد نشہ کا عادی ہو جائے تو اس کے اثرات ملٹی ڈائمینشنل ہوتے ہیں۔ جسمانی طور پر وہ بندہ بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔ کچھ بیماریاں وہ اس پاس کے لوگوں کو منتقل کر دیتا ہے۔ ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔ معاشی طور پر وہ ناکارہ ہو کر معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اپنے گھر، محلے، گاؤں والوں پر بوجھ بن جاتا ہے۔
بڑے بڑے خاندانوں کے نشئی لوگ دیکھے ہیں جو جنازوں کے چارپائی چوری کرتے ہیں۔
اب تدارک کے ضروری ہے کے ہر ضلع و ہر تحصیل کے عوامی و حکومتی اداروں کے سربراہان مل بیٹھ کے قابل عمل منصوبہ بندی کریں۔ ہر تھانہ کے تھانیدار سے نشہ بیچنے والے اور نشہ کے عادی افراد کے خلاف بلا خوف کارروائی کا حکم دے۔
تعلیمی اداروں کے ہاسٹل نشہ کے آماجگاہ بن چکے ہیں جن کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ تھانے کا عملہ کچھ عرصہ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر چھاپہ لگائے اور ملوث افراد کو گرفتار کر کے بلا امتیاز کارروائی کرے۔
جب تک طلباء کو اس قسم کی برائیوں پر سزا نہیں دی جائے اور ان کے والدین ملوث نہ کریں تب تک اصلاح کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔