
علم و ادب کے بحر بے کَراں میں ایسے خوش نصیب کم ہی ملتے ہیں جو بیک وقت کئی محاذوں پر اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑتے نظر آتے ہیں۔ ندیم اختر غزالی انہی ممتاز قلم کاروں میں سے ایک ہیں جن کی تحریریں نہ صرف قاری کو مسحور کرتی ہیں بلکہ نسیمِ سحر کی مانند فکر کے نئے غنچے کھلاتی اور شعور کی پنکھڑیوں کو تاز گی عطا کرتی ہیں۔ وہ لکھنے بیٹھتے ہیں تو لفظوں کے حشم و خدم کے لشکر ہمرکاب ہوتے ہیں، ان سے تعارف خوشبو بھری تازگی کی مانند ہے، شہد کی مٹھاس جیسا، نرم گفتار، دھیمے مزاج اور اپنائیت سے لبریز انداز انہیں ہر محفل کا مرکز بنا دیتا ہے۔ طبیعت میں بے تکلفی ہے اور صحبت میں ایسا سکون جیسے کسی چشمے کے کنارے بیٹھے ہوں۔ ان کی آواز میں عجب غنائیت اور شیرینی ہے۔ ان سے ہم کلامی سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شفاف چشمے سے پانی پی کر دیرینہ پیاس بجھا لی ہو۔ ان کے دو لفظ ہی دل کو آسودگی اور ذہن کو بالیدگی عطا کر جاتے ہیں۔ یہی اوصاف ان کی تحریروں میں
جھلکتے ہیں اور انہی کے باعث ان کی شخصیت میں وہ مقناطیسی کشش ہے جو احباب کو قریب کھینچ لاتی ہے۔
ندیم اختر غزالی کے تخلیقی سفر کی پہلی سیڑھی ان کی علم و آگہی سے مرقع مذہبی نگارشات ہیں جو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پر سعادت موضوعات کا بالخصوص احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اس میدان فکر و دانش میں ان کی دسترس کسی عام کالم نگار کی سی نہیں بلکہ ایک محقق اور دردمند مصلح کی سی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوعات کو بیان کرنے اور اور پھر موجودہ معاشرتی صورتِ حال سے جوڑنے کا جو سلیقہ انہیں حاصل ہے وہ آج کے دور میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی تحریروں میں دین کا سنجیدہ
وقار بھی جھلکتا ہے اور قاری کو عمل پر آمادہ کرنے والی حرارت بھی ملتی ہے۔
روزنامہ جنگ،روزنامہ نوائے وقت ، روزنامہ مرکز، روزنامہ اساس، اخبار شاہکار اور ہفت روزہ پنڈی پوسٹ اسلام آباد میں چھپنے والے ان کے کالم قارئین کے لیے یقینا” روحانی تازگی اور فکری بالیدگی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ان کا مشہور زمانہ کالم بعنوان ”مغرب اور اسلامی ثقافت کے اختلاط کا شور” اس بات کی زندہ مثال ہے کہ وہ کس طرح مغربی تہذیب کی چکاچوند کے پسِ پردہ چھپے خطرات کو واضح کرتے ہیں اور اسلامی اقدار کی حفاظت کا راستہ دکھاتے ہیں۔ ان کی
تحریریں محض علمی مباحث نہیں بلکہ ایک دعوتِ عمل ہیں جو قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔
ندیم اختر غزالی کے قلم کی دوسری جہت جذبہ ءحب الوطنی سے لبریز ان کی شاندار تحریریں ہیں۔ وطن سے بے پایاں محبت ان کی سرشت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے جس کا اظہار ان کی لازوال تحریروں میں نظر آتا ہے۔حال میں ان کی ایک خوبصورت تحریر ”ستمبر، لہو گرماتا ہے” عسکری ادارے آئی ایس پی آر کے میگزین ”ہلال اردو” ستمبر 2025 یوم دفاع خصوصی ایڈیشن میں شائع ہوئی ہے جس نے بلاشبہ ایک بار پھر پوری قوم کا لہو گرما دیا ہے۔جوں جوں تحریر پڑھتے جائیں آنکھوں کے سامنے معرکہ 1965 ءکے لمحہ بہ لمحہ مناظر وڈیو فلم کی طرح چلنے لگتے ہیں۔معرکہ ستمبر کی اتنی حقیقی اور شاندار لفظی عکس بندی صرف ندیم غزالی صاحب کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔معرکہ ستمبر کے ساتھ ساتھ جس
طرح انھوں نے معرکہ حق 2025 ءکی شاندار فتح کو اپنے خوبصورت لفظوں سے موتیوں کی طرح جوڑا ہے اس سے دل خوش ہوگئے ہیں، وطن سے انسیت و بے پایاں محبت کے جزبے دوبارہ جاگ اٹھے ہیں اور افواج پاکستان پر بے اختیار پیار آنے لگا ہے اور یہ بات کرنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہلال اردو نے ”ستمبر، آج بھی لہو گرماتا ہے” جیسی تحریر شائع کر
کے یقینا” اپنی اسپیشل اشاعت کا حق ادا کر دیا ہے۔
دینی محاذ اور وطن عزیز سے لازوال محبت کے سلسلوں کے علاوہ ندیم اختر غزالی کا نام ”ادبِ اطفال” کے میدان میں بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بچوں کے لیے ”ہلال برائے اطفال” اور ”روز نامہ اساس” میں لکھی ان کی سائنس فکشن کہانیاں بلاشبہ سکول و کا لج کے بچوں کے لیے کسی معلوماتی علمی ذخیرے سے کم نہیں ہیں۔ یہ کہانیاں بچوں کو کائنات کے اسرار سے روشناس کرواتی ہیں۔ ”چندا ماموں کے آنگن میں” اور ”سیارہ زحل پر کمند ” جیسی شاہکار کہانیاں جہاں نئی نسل کے اندر سائنسی جستجو اور کائناتی فکر کو بیدار کرتی ہیں وہیں ” ماریانہ ٹرنچ کی سیر” سائنس اور فطرت کے حسین امتزاج سے قدرت خداوندی سےبچوں کی پہچان کرواتی ہیں، یوں ندیم اختر غزالی کی بچوں کے لیے لکھی تحریریں محض کہانیاں نہیں بلکہ ایک نصابِ حیات ہیں جو بچے کے ذہن میں سوالیہ چراغ روشن کرتی ہیں اور اس کی آنکھوں کو کائنات کے اسرار دیکھنے پر مائل کرتی ہیں۔
ایسے لگتا ہے جیسے وہ بچوں کی نفسیات کو کتابوں سے نہیں بلکہ براہِ راست دل کی آنکھ سے پڑھتے ہیں۔ ان کے کالموں میں بچوں کی تربیت پر جو باریک بینی سے روشنی ڈالی جاتی ہے وہ محض نصیحت نہیں بلکہ زندگی کے مجرب تجربات اور فطرت کے عمیق مشاہدات ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیقات بچوں کے تخیل کی پرواز کو بڑھاوا دیتی ہیں لہذا و الدین کو اپنے سکول و کالج کے بچوں کو ندیم اختر غزالی کی کہانیا ں پڑھنے کی بالخصوص ترغیب دینی چاہیے۔
علمی و ادبی کتابوں پر ندیم اختر غزالی کے اخباری تبصرے محض رسمی تعارف یا تعریف کے جملے نہیں ہوتے بلکہ ان کی نقادانہ بصیرت کا پتہ دیتے ہیں۔ وہ محض تعریف یا مذمت نہیں کرتے بلکہ اوصاف و نقائص کو متوازن انداز میں بیان کرتے ہیں، وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور مصنف کو بھی اپنی اصلاح کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں
یہی بے لاگ انداز انہیں ایک سنجیدہ اور سچے نقاد کے مرتبے پر فائز کرتا ہے۔ندیم اختر غزالی کا قلم محض کاغذ پر چلنے والی روشنائی کی لکیر نہیں بلکہ ایک زندہ دھڑکن ہے جو باذوق قلوب کی آبیاری کر کے ادب کو تازہ خون عطا کر رہا ہے۔ ان کی تحریر قاری کو صرف مطالعے کی لذت نہیں دیتی بلکہ اس کے اندر ایک نیا ذوق، ایک نئی آگہی اور ایک نیا شعور جگا دیتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں تو الفاظ میں ایسی خوشبو گھل جاتی ہے جو پڑھنے والے کو خواب اور حقیقت کے سنگم پر لے آتی ہے۔ ان کے مضامین بچوں کے لیے حسین خوابوں کی روشن راہیں متعین کرتے ہیں، جو انہیں زندگی کو بہتر زاویوں سے دیکھنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ بڑوں کے لیے وہ فکر کی تازہ راہیں کھولتے ہیں جن سے انسان اپنے وجود اور اپنے معاشرے کو نئی معنویت کے ساتھ پرکھتا ہے۔
ادب کی دنیا میں کچھ لوگ محض لکھاری نہیں ہوتے بلکہ چراغ ہوتے ہیں۔ ان کے لفظوں کی لو اندھیروں کو شکست دیتی ہے اور سوچوں کے بند دریچوں کو کھول دیتی ہے۔ ندیم اختر غزالی انہی چراغوں میں سے ایک ہیں۔ وہ لفظوں کو ایسی جِلا بخشتے ہیں کہ وہ آئینہ بن کر قاری کو اس کی اصل پہچان دکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افکار مستقبل کی نسلوں کے لیے مینار ہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ندیم اختر غزالی کی شخصیت کی یہ کثیرالجہت صلاحیتیں نئی نسل کے لیے ایک روشن مثال ہیں کہ اگر جذبہ اور محبت ہو تو عملی زندگی کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ ادب کی
خدمت بھی عین ممکن ہے۔
ان کی علمی و ادبی خدمات صرف اخباروں اور رسالوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ ریڈیو پاکستان میں بھی وہ اپنے فن و فکر کا چراغ جلا چکے ہیں۔ وہ شوشل میڈیا میں یوٹیوب، واٹس ایپ اور فیس بک پر بھی مختصر پراثر الفاظ میں حکمت بھری باتوں کے ذریعے انسپائریشنل سپیکر کے روپ میں معاشرتی کرداروں کی تربیت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ مائیک کے سامنے ان کی گفتگو میں وہی حرارتِ افکار جھلکتی ہے جو ان کے کالموں میں پائی جاتی ہے۔ سامعین ان کی آواز میں بھی وہی تازگی محسوس کرتے ہیں جو قاری ان کے الفاظ میں پاتا ہے۔
اسی طرح ادبی و دینی محافل میں بھی وہ اپنے روح پرور بیانات سے حاضرین کے دلوں کو منور کرتے رہتے ہیں۔ اس موقع پر ایک ذاتی خوشی کا تذکرہ بھی لازم ہے۔ حلقہ اربابِ ادب پاکستان ملٹری اکاؤنٹس لاہور کی جانب سے جشنِ آزادی کے سلسلے میں منعقدہ تقریب میں شرکت کے لیے اپنی گوناں گوں مصروفیت کے باوجود ندیم اختر غزالی پنڈی سے خصوصی طور پر لاہور تشریف لائے۔ یہ ہماری خوش بختی تھی کہ اس بہانے پہلی بار نہ صرف ان سے بالمشافہ شرف ملاقات حاصل ہوا بلکہ اپنے ادبی افکار اور ملفوظات کی خوشبو سے محفل کو معطر کر گئے۔ یہ ملاقات ہماری یادوں میں ایک ایسا مہکتا ہوا باب نقش کر گئی ہے جو وقت کے دامن میں ہمیشہ تابندہ رہے گا۔حلقہ ارباب ادب ملٹری اکاؤنٹس لاہور، اس خصوصی عنایت کے لیے دلی طور پر ان کا سپاس گزار ہے۔ ایسی محفلیں اور ایسے ذی شعور لوگ ہمارے معاشرے کے لیے امید کے چراغ ہیں۔ دعا ہے کہ یہ چراغ ہمیشہ روشن رہیں، سلامت رہیں، شاد رہیں۔
ندیم اختر غزالی محض ایک قلم کار نہیں، ایک تحریک ہیں، تحریکِ ادب، تحریکِ تحقیق اور تحریکِ شعور، جو آنے والی نسلوں کو روشنی کا ایسا چراغ عطا کرے گی جو کبھی بجھنے نہ پائے گا۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ندیم اختر غزالی کے قلم کو مزید روانی، دوام اور پرواز عطا کرے اور ان کی فکر کو اتنی وسعت دے کہ وہ اسمانوں کو چھو لے اور ان کی تحریریں صدیوں تک دلوں کو پہیم روشنی مہیا کرتی رہیں۔
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ ازاد آمین۔
تحریر: امجد علی