نثار کے مقابلہ میں قمرالسلام کاٹکٹ؟

ساجد محمود
موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن مئی کے آخر میں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہو جائے گی جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نئے انتخابی شیڈول کا اعلان بھی بہت جلد متوقع ہے سابق وزیراعظم کے حالیہ انگریزی اخبار ڈان میں ممبئی حملوں کے حوالے سے متنازع بیان دینے سے جہاں مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے وہاں انکا یہ بیان عوامی اور عسکری حلقوں میں بھی خاصی پریشانی اور دل گرفتگی کا باعث بنا ہے تاہم چوہدری نثار علی خان پہلے ہی اپنی مخلصانہ طویل سیاسی رفاقت کے پیشِ نظر میاں نواز شریف کو اداروں کیساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی روش کو ترک کرنے کا مشورہ دے چکے تھے تاہم سابق وزیراعظم نے انکی باتوں کو ہنسی مذاق میں ٹال کر ہوا میں اڑا دیا تھا آمدہ الیکشن 2018 کے حوالے سے ملکی اور مقامی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے پرانی حلقہ بندیوں کی اکھاڑ بچھاڑ سے متوقع امیدواروں کیساتھ عوام بھی تذبذب کا شکار ہے تاہم نئے حلقے این اے 57 پی پی 7 اور حلقہ این اے 59 پی پی 10 میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے یہ دونوں حلقے چوہدری نثار علی خان اور شاہد خاقان عباسی کا حلقہ انتخاب ہونے کی بنا پر عوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں حلقہ این اے 57 سے مسلم لیگ ن سے شاہد خاقان عباسی ایک مضبوط امیدوار کی حثیت سے ناقابلِ شکست تصور کئیے جا رہے ہیں جبکہ انکے مد مقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار آصف شفیق ستی کا ٹکٹ بھی کنفرم ہے کیونکہ یہ 80 کی دہائی سے پیپلز پارٹی کیساتھ منسلک ہیں سابقہ کسان کونسلر کے عوامی عہدہ پر بھی براجمان رہ چکے ہیں اس کے علاوہ فلاحِ انسانیت کے حوالے سے کوہسار ویلفیئر ٹرسٹ کے نام سے ایک تنظیم کو بھی آپریٹ کر رہے ہیں جسکی بنا پر عوامی حلقوں میں انہیں اچھی خاصی پزیرائی حاصل ہے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے تحریک انصاف تحصیل کلر سیداں کے صدر راجہ ساجد جاوید بھی ٹکٹ کے خواہشمند ہیں تاہم صداقت علی عباسی ٹکٹ کے حصول کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں جبکہ پی پی 7 سے راجہ ظفرالحق کے فرزند راجہ محمد علی کو بھی ٹکٹ کے حصول میں کسی قسم کی دشواری درپیش نہیں مگر راجہ صغیر احمد جو ہر مرتبہ آزاد حثیت سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اس مرتبہ بھی محمد علی کو ٹف ٹائم دینے کیلئے انگڑائیاں لے رہے ہیں کیونکہ خوشی اور غمی کے موقعہ پر عوام کی پشت پر کھڑا ہونے کے علاوہ خدمتِ خلق کے حوالے سے بھی وہ عوامی حلقوں میں بے حد مقبول ہیں تحریک انصاف سے حافظ سہیل اشرف کا نام بھی زیرِ غور ہے جبکہ پیپلز پارٹی سے محمد اعجاز بٹ اور سابقہ ایم پی اے چوہدری محمد خالد مرحوم کے بھائی چوہدری محمد ایوب اور بلال قیوم بھی ٹکٹ کے حصول میں سرگرداں ہیں این اے 59 پی پی 10 سے قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن سے چوہدری نثار علی خان تحریک انصاف سے اجمل صابر مد مقابل ہونگے جبکہ جماعت اسلامی کے خالد محمود مرزا بھی طبع آزمائی کریں گے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ ہونا باقی ہے موجودہ ایم پی اے راجہ قمر اسلام بھی اس حلقے سے الیکشن لڑنے کے خواہش مند ہیں تاہم چوہدری نثار علی خان کی موجودگی میں انکے لیے اس حلقے میں پارٹی ٹکٹ کا حصول ناممکن دکھائی دیتا ہے صوبائی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف سے چوہدری افضل ٹکٹ کے حصول میں سر فہرست ہیں وہ بڑے زوروشور سے الیکشن مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں غلام سرور کے حامی گروپ کی سیاسی حمایت بھی حاصل ہے گو ان دونوں حلقوں میں مسلم لیگ ن کا نظریاتی ووٹ بینک ایک حقیقت ہے تو دوسری طرف نوجوان نسل تحریک انصاف کے چئرمین عمران خان کے حالیہ پیش کردہ اصلاحاتی منشور سے بھی خاصی متاثر نظر آتی ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ آمدہ الیکشن میں عوام اپنے ووٹ کے زریعے کس اکثریتی پارٹی کے حق میں اپنا فیصلہ سناتی ہے جس نے کامیابی کی صورت میں ملکی نظم و نسق کو چلانا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں