نبی کریم ﷺکی مکی زندگی کے مختصر حالات

مولانا محمد اسرار الحق /اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا آپﷺ کی سیرت کا ہر پہلو اولاد آدم کے لئے بحث رحمت اور خیر و برکت ہے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا کہ
“نبی اکرم ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے؛آج زیرنظر کالم میں حضورﷺ کی مکی زندگی کے حالات پہ قلم اٹھانے کا شرف حاصل ہوا حضور کی ولادت با سعادت ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن صبح کے وقت مکة المکرمہ میں ہوئی ولادت باسعادت کے وقت بہت سے معجزات اور کمالات کا ظہور ہوا نسب مصطفی کائنات کے تمام انساب میں سے سب سے اعلی اور افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے آپ کے دادا جان حضرت عبدالمطلب رحمہ اللہ تعالی نے جملہ امور کی نگرانی کا ذمہ اٹھایا اللہ تعالی نے آپ کی رضاعت کے لئے قبیلہ بنو سعد کی عظیم خاتون حلیمہ سعدیہ کا انتخاب فرمایا پانچ سال کی عمر مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ آمنہؓ کے پاس تشریف لائے اور چھ برس کی عمر میں والدہ ماجدہ کا بھی انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت حضرت عبدالمطلب رحمہ اللہ تعالی کے پاس آ گئی آٹھ سال کی عمر میں حضرت عبدالمطلب رحمہ اللہ تعالی کا بھی انتقال ہو گیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت اپنے مشفق چچا ابو طالب نے کی اور بارہ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ایک تجارتی قافلہ میں شام کا سفر فرمایا 25 سال کی عمر میں حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح ہوا ان کی عمر اس وقت چالیس سال تھی انہی سے آپ ﷺ کو اللہ تعالی نے چار بیٹیاں حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا‘حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا‘حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا اور دو بیٹے حضرت قاسم رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ (طاہر اور طیب انہی کا لقب ہے) عطا فرمائے اور ایک بیٹا حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے عطا فرمایا چالیس سال کی عمر مبارک میں آپ ﷺ پر غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی اور سورہ قلم کی ابتدائی آیات نازل ہوئی
*عام الحزن (غم کا سال)
حضورﷺ کی بعثت (نبوت) کے دسویں سال یعنی پچاس سال کی عمر مبارک میں زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا اسی سال کو غم کا سال فرمایا
سفر طائف!پھر مکہ مکرمہ میں ظلم و ستم کی انتہا ہوئی تو آپﷺ نے طائف کا سفر کیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی تو وہاں کے اوباش لڑکوں نے آپﷺ پر پتھر برسائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک خون سے تر ہوئے ایسی حالت میں بھی اس عظیم ہستی رحمة اللعالمین نے ان کے لیے بد دعا نہ کی بلکہ اللہ تعالی سے عرض کیا کہ الہی یہ مجھے جانتے نہیں ان کی نسلوں سے لوگ ضرور مسلمان ہوں گے
*معجزات !مکہ مکرمہ میں اللہ تبارک و تعالی نے بے شمار معجزات عطا فرمائے جس میں واقعہ معراج اور شق القمر انتہائی اہم ہیں
*بیعت عقبی اولی!نبوت کے گیارھویں سال مدینہ منورہ میں اسلام کی دعوت پہنچی اس کے بعد جب حج کا موقع آیا تو مدینہ منورہ کے بارہ آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اسے بیعت عقبہ اولیٰ کہا گیا
*بیعت عقبہ ثانیہ!حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ اہل مدینہ کے پاس تعلیم و تربیت کے لئے تشریف لے گئے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ اگلے سال حج کے ایام میں مکہ واپس آئے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مدینہ کے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت بھی تھی اور ایام تشریق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور بیعت بھی کی جسے بیعت عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی طرف سے ہجرت مدینہ کا حکم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مدینہ طیبہ کی طرف ھجرت فرمائی اللہ تعالی ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

اپنا تبصرہ بھیجیں