احمد شاہ بہا در چود ھواں مغل باد شاہ تھا۔ 29اپریل1748 ء وہ بد قسمت دن تھا جس دن دہلی کے تخت پربر اجماں ہوا۔احمد شاہ بہادر،محمدشاہ رنگیلے کا اکلو تا بیٹا تھا۔ وہ مسائل حکمرانی سے مکمل طور پر نا بلد تھا۔ اس کی کسی قسم کی تر بیت بھی نہیں تھی۔ بادشاہ بننے کی واحد وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اپنے باپ کا واحد لڑکا تھا اور یہ فیصلہ بہت زیادہ تکلیف دہ ثا بت ہو۔ا حمد شاہ بہادر نے تخت نشین ہونے کے بعد اپنے لئے مجاہدین احمد شاہ غازی کا لقب اختیار کیا‘
حالا نکہ وہ اصول صرب سے ناواقف تھا مگر وہ بادشاہ تھا۔ وہ کچھ بھی کر سکتا تھا جس جنگ کو بنیاد بنا کر اس نے اپنے لئے غازی کی کنیت استعمال کی اس میدان کا رزارہیں۔ احمد شاہ بہا در نے کو ئی بھی کار نامہ سرا نجام نہیں دیا تھا دور تنز لی کی نشانی ہی یہی ہے کہ خوا ص اپنی شان بڑھا نے کے لئے ہر کام کر سکتے ہیں۔ احمد شاہ بہادر کی والدہ قدسیہ بیگم نچلے سماجی طبقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ شادی سے پہلے وہ اور اس کا پورا خاندان دہلی کی گلیو ں میں ناچ گانے کا دھندا کر تا تھا مگر آپ بر صغیر کی پا ور پا لیٹکس کا سفلی پل دیکھئے کہ وہ عیاری کے ساتھ محمد شاہ رنگیلے کے حرم میں داخل ہو ئی اورملکہ بن گئی۔
قد سیہ بیگم بادشاہ کی والدہ تھی اور اصل حکومت اسی کے ہاتھ‘ محمد شاہ رنگیلے کے حرم میں لگاؤ تھا۔ لال قلعہ میں جاوید خان نامی خو اجہ سرا کے ساتھ زندگی گزار ہی تھی طوائف اور خواجہ سرا دونوں مل کر پورے بر صغیر پر دندناتے پھر رہے تھے۔ قد سیہ بیگم نے بذات خود اپنے لیے جو نام منتخب کیے تھے وہ حد درجہ عا لیشان تھے۔ ان القابات سے وہ اپنے احساس کمتری کو کم کر نے کی کو شش کر تی تھی۔ صا حبہ اززمالی‘حصرت قبلہ عالم، ممتاز محل اور نواب قد سیہ جیسے نام اپنے لئے استعمال کرواتی تھی۔ سمج فہمی کا اندازہ لگا ئیے کہ 21جنوری1754ء کو اس کا یوم پیدائش منایا گیا اس سالگرہ پر دو کروڑروپے اپنی گرہ سے خرچ کئے مگر اس اثناء میں فوج کے سپاہی تنخواہ نہ ملنے پر ہنگا مہ کر رہے تھے اور ان کی مجموعی تنخواہ صرف دولاکھ روپے تھی جو بادشاہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔
یعنی خوا ص حددرجہ امیر تھے مگر سرکاری خزانہ خالی تھا۔ تمام تیسری دنیا کے ممالک میں ما ضی میں یہی حا لات تھے اور آج بھی وہی دگرگو ں حالات ہیں ہمارے خطے یعنی بر صغیر میں یہ معا ملہ صدیوں سے ایسا ہی چلا آرہاہے۔ قد سیہ بیگم دربارخود لگاتی تھی اور امراء کو بلا کر احکاما ت صادرکرتی تھی۔ احمدشاہ بہادر کو کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ فرامین کب اور کیو نکر جاری ہوئے ہیں۔احمد شاہ بہادر کو فکر بھی نہیں تھی کہ اس کی والدہ اختیارات کا کس قدر غلط استعمال کر رہی ہے۔
گراوٹ کی انتہا د یکھئے کہ قد سیہ بیگم کے بھائی کا نام مان خان تھا وہ زنا نہ کپڑے پہن کر گلیوں میں خواتین کے ساتھ نا چتا تھا۔ جب ہمشیرہ ملکہ بنی تو بھا نجے نے اپنی والدہ کے کہنے پر اسے ملا قادالدولہ بہادر کا خطاب عطا فرمایا اور چھ ہزارسو ارو پر منصب دار مقرر کر دیا یعنی سب کچھ بادشاہ اور اس کی والدہ نے اپنے خاندان تک محدودکر لیا تھا۔ انعام واکرام،دولت، بلند و بانگ خطابات اورنمود نمائش سب کچھ ان سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہو اتھا۔ احمد شاہ بہادر چھ برس کے قریب بر صغیر میں ہو س لالچ اور بدعنوانی کا کھیل کھیلتا رہا پھروہی ہوا جو قدرت کے عظیم فیصلے ہو تے ہیں۔ عمار الملک جو کہ سابقہ وزیر عظم تھا اور احمد شاہ بہادر کا دشمن تھا اس نے مرہٹوں کے پیشو ا ملہار راؤ ہلکر کے ساتھ مل کر بادشاہ اور اس کی والدہ کو گرفتار کر لیا۔ دونوں کی آنکھیں نکالی گئیں اور انہیں سالم گڑھ کے قلعہ میں نظر بندکردیا گیا جہاں دونوں اپنی موت تک قید رہے۔ ہندو ستان کی دوہزار سالہ تاریخ کو غور سے پڑھیے اور اس کا غیر متعصب تجر
یہ فرمائیے آپ کو کسی بھی دور میں قانون کی حکمر انی، انسانی حقوق اور مضبوط ادارے نظرنہیں آئیں گے۔ ایک امر تو یقینی ہے کہ بر صغیر میں انتقال اقتدار کا کوئی درست اور صائب نظام نہیں بن پایا۔ انگریز وں کے دور میں بھی حکمران کسی بھی طریقے سے لوگوں کے جذبات کی نمائندگی نہیں کرتے تھے یہ کہنا بلکل درست ہے کہ حکومت کرنے کا حق ہمارے خطے میں ہمیشہ طاقت کے بل بوتے پر حاصل کیا گیا ہے اور اس سیاسی جنگ کا سب سے بڑا اصول یہی ہے کہ اس کا کوئی اصول نہیں ہے
1947ء اور اس سے پہلے کے ستر برس کی تاریخ کی ورق گردانی یہ ثابت کرتی ہے کہ آہستہ آہستہ عام لوگوں میں شعور کی سطح بلند ہو رہی تھی جمہوریت کا پودا تمام تر مسائل کے باوجود پنپنے کی کوشش کر رہا تھا اس میں ان مقامی لوگوں کا بہت زیادہ ہاتھ ہے جو آزادی کی امنگ لیے خطے کے لیے بہتر سہولتوں کے طلبگار تھے۔ اس آرزوکی تکمیل کے لیے مختلف ادوار میں حد درجہ قربانیاں دی گئیں۔ سچ یہ بھی ہے کہ اس میں ہندو مسلما ن اور سکھ بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ مذہب کا کسی قسم کا عمل دخل تھا۔۔
1857ء کی جنگ آزادی صرف مسلمانوں تک محدود نہیں تھی میرٹھ چھاؤکی سے اٹھنے والی اس عظیم بغاوت میں مسلمان اور ہندو برابر کے شریک تھے مگر جب انگریزوں نے یہ دیکھا کہ اگر تمام لوگ متحد ہو گئے تو ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا،اسے بے دریغ لوٹنا نا ممکن ہو جائے گا۔ اس وقت تاج برطانیہ کی ناک کے سائے تلے دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں نفرت کا بیچ بویا گیا یہ سب کچھ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی تخت کی ایسی قبیح سازش تھی جس میں وہ مکمل کامیاب رہے ہندواور مسلمان صدیوں سے آپس میں آرام اور امن سے زندگی بسر کر رہے تھے ان میں کبھی بھی فسادات نہیں ہوئے تھے۔
مگر انگریزوں نے کمال منافقت سے دونوں کو ایک دوسرے سے متنفر کرنا شروع کر دیا جو کہ ایک سماجی خلیج کی شکل اختیار کر گیا اور آج وہ خلیج بڑھ کر ایک ایسا تیزابی سمندر بن گیا ہے جسے عبور کرنا کسی کے بس میں نہیں رہا۔تقسیم ہند کے بعد دونوں ممالک نے اکٹھا سفر شروع کیا۔ ہندوستان خوش قسمت ثابت ہوا کہ آزادی کے ردعمل میں بذات خود شامل رہنے والے قائد ین کو حکومت کرنے کا موقع ملا۔ نہرو سولہ برس تک ہندوستان کا وزیراعظم رہا اس نے وہاں ریاستی ادارے بنانے پر کافی محنت کی اس کی بدولت ہندوستان جمہوریت کی پگڈنڈی پر چلتے چلتے ایک مستحکم شاہراہ پر گامزن ہو گیا جس میں کافی حد تک ووٹ کے ذریعے حق حکمرانی لوگوں تک پہنچا رہا۔ مگر ذرا دیکھئے کہ پاکستان میں مسائل قائد کے فوت ہونے سے بگڑتے چلے گئے
غلام احمد،سکندر مرزا اور ایوب خان کے وہ مکروہ کھیل کھیلتے جس نے ملک میں فطری طور پر جمہوریت کے کمزور پودے پر محلاتی سازشو ں کی مہلک آبیاری کر دی ہمارا دورابتدہ اسی وقت سے شروع ہو چکا تھا جب یہ لوگ عوام کو جوابدہ نہیں تھے مگر ملک کے حکمران تھے یعنی انتقال اقتدار کا کوئی اصول ہم طے ہی نہیں کر پائے۔ غلام محمد فالج زدہ انسان تھا جو بول نہیں سکتا تھا 1951ء سے 1955ء تک طاقتور ترین حکمران رہا۔ہم نے مشرقی پاکستان کو اپنی ادنی حکمت عملی اور نااہلی سے گنوا دیا ہم ملک میں کوئی ایسا مستحکم نظام کی اینٹ تک نہیں رکھ پائے جس سے طاقتور اداروں کی سیاست میں عملداری ختم کی جاسکے۔
تنزلی کا یہ سفر کمزور اور مفاد پرست سیاستدانوں کی وجہ سے جاری رہا اور ریاستی ادارے سیاست میں شامل ہوتے چلے گئے۔یحیٰ خان‘ ضیاء الحق‘ پرویز مشرف وہ مشکل لوگ تھے جو لوگوں کی بہتری کے نعرے لگاتے رہے مگر ملک کو وہاں پہنچا دیا جہاں سے واپسی کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ ملک کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل رہا دیا جس کے شعلے ہمارے دلیر بچوں کو زندہ جلا رہے ہیں۔ شہریوں کو روزانہ کی بنیاد پر ذبح کیا جا رہا ہے۔لگتا ہے کہ ہر دور کا اپنا احمد شاہ بہادر ہوتا ہے۔ دراصل نا اہل حکمران ہی ریاستیں تباہ
کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔