ہمارا معاشرہ نانصافیوں کا شکار ہے یہاں قانون اور توازن عنقا ہیں بدقستمی سے ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں وہاں ناانصافیوں کی تیز،وتند آندھیوں نے عوام کو زندہ درگور کررکھا ہے۔ ایک طرف فنون حرب وضرب کے مائر ہاتھوں نے کمال مہارت سے لوٹا ہے تو دوسری جانب سیاسی جبر نے ہمیں اپنا شکار بنا رکھا ہے۔ ہمارے چاروں اُور ایک گہری دھند پھیلی ہوئی ہے جس میں کئی سائے آسب بن کر ہم سے لپٹے ہوئے ہیں اور ہم بلند حوصلوں کے ساتھ سب برداشت کررہے ہیں تمام تر نانصافیوں‘زیادیتوں اور منفاقتوں کے باوجود ہمارا حوصلہ ہمیں یقین دیتا ہے کہ برداشت کرتے رہو شاید کبھی کوئی مسیحا آئے۔جھوٹے وعدوں تسلیوں اور پرفریب نعروں کی گونج میں اپنی گمشدہ منزل پانے کی خواہش رکھنے والے عوام ہر روز کسی نہ کسی سانحے سے دوچار ہوتے ہیں۔نیکی اور بدی کی جنگ میں بدی مسلسل پروان چڑھ رہی ہے نفس کشی اور صیح وغلط کی تمیز مٹ چکی ہے ہمارے معاشرے میں بدی کو جو ترقی ملی ہے اس کے متعلق شاید ماضی بعید میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔بدی کے امڈتے طوفان میں ہماری نسلیں تباہ ہورہی ہیں۔بدی کو بڑھوتی مل رہی ہے دولت کی ہوس اور بغیر محنت امارات کی خواہش نے معاشرے کو منشیات اور سود جیسی حرام آمدنی کا آسان راستہ دیکھا دیا ہے اور اس راستے پر چلنے والے بے ضمیر انسانوں نے سماج کو دکھی کردیا ہے غریب لوگوں کو شکار بنا کر سود درسود کے چنگل میں پھنسا کر ان کی شہہ رگوں سے خون پینے کا عمل مسلسل لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کررہا ہے۔گوجرخان میں سود خوروں کے ہاتھوں پریشان میاں بیوی کی خود کشی نہ صرف معاشرے کے ان ناسوروں کی خود غرضی اور حرام کھانے سے ہونے والی مردہ ضمیری کی کہانی بیان کرتی ہے بلکہ بحیثت قوم ہماری بے حسی کو بھی اجاگر کرتی ہے۔گوجر خان سے رپورٹ ہونے والی خبروں کے مطابق سود خوروں کے چنگل میں پھنسی نادیہ نامی خاتون جانوروں سے بدتر اس سود خور مخلوق کی بلیک میلنگ سے تنگ آکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق خاتون کے خاوند نے سود خوروں پر نادیہ سے زیور ہتھیانے اور اسے زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے شاید خاتون کی خود کشی کا کارن زیادتی ہی ہو۔نادیہ کے خاوند شیخ شیراز کی مدعیت میں گوجرخان تھانے میں مقدمہ درج ہوا۔لیکن شیخ شیراز پولیس کے جانبدار رویے کو محسوس کرتے ہوئے انصاف فراہمی سے مایوس ہوا اور ایک وڈیو بیان ریکارڈ کرکے خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کرلیا شیخ شیراز کے والد کا موقف ہے کہ اس کا بیٹا پولیس کے رویے سے مایوس ہوا جہاں پولیس نے نامزد ملزم کو کرسی پیش کی گئی اور مدعی کو کھڑا رکھا گیا۔شیراز کے والد کی بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پولیس نے ملزم کو تھانے میں کرسی پر بیٹھا کر اور مدعی مقدمہ کو کھڑا رہنے پر مجبور کر کے اسے پیغام دیا کہ سود خور ملزم پولیس کے لیے قابل احترام اور مدعی بے حیثت ہے نادیہ کی موت کے ذمہ دار تو سود خور جانور ہیں لیکن نادیہ کے شوہر کی موت کی ذمہ دار گوجرخان پولیس اور ایس ایچ او گوجرخان ہیں جن کے جانبدار رویے نے شیراز کو اس قدر مایوس کیا کہ اس نے زندگی کے خاتمے کو بہتر جانا۔ویڈیو میں شیراز کا یہ کہنا کہ تھانے میں موجودگی کے دوران ملزم اسے دیکھ طنزیہ ہنسی ہنستا رہا شیراز کی خود کشی کے بعد پولیس کے اعلی حکام کا نوٹس لینا سوائے تماشے کے اور کچھ نہیں کرپشن کی گندگی میں لتھڑا یہ محکمہ اس قدر بے حس اور بے شرم ہوچکا کہ خون کا سودا کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا اعلی حکام کو نوٹس لینا تھا تو اپنے ایس ایچ او کے خلاف لیا ہوتا جو ملزم کو عزت سے کرسی پیش کرتا ہے اور مدعی کو اس کے سامنے کھڑا رہنے پر مجبور کرتا ہے۔جس کے باعث مدعی انصاف سے مایوس ہو کر زندگی کا خاتمہ کرتا ہے۔سود خوروں کی گرفتاریاں تو ہوئیں لیکن شیراز کی خود کشی کا کارن بننے والے ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ انسان کو کسی کے دماغ سے کھیل لینا چاہیے مگر کسی کے دل نہیں کھیلنا چاہیے کیونکہ دماغ کا ہارا شخص دنوں میں سنبھل جاتا ہے مگر اگر دل ٹوٹ جائے تو انسان شیخ شیراز کی طرح دنیا چھوڑ دیتا ہے۔ گوجرخان پولیس علاقے میں سود کا کاروبار کرنے والے افراد پر قانون لاگو کریں پولیس سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں بیول سمیت گوجرخان کے مختلف علاقوں میں سود خور دھڑلے سے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔پولیس اس حوالے سے پریس ریلز جاری کرتے ہوئے سود خوروں کے چنگل میں پھنسے مجبور افراد کو سود خوری کے قانون بابت اگاہی دے کر پولیس سے رابطہ کرنے کا راستہ بتائیں۔تاکہ مزید کوئی نادیہ یا شیراز جان خود کشی نہ کریں۔
طالب حسین آرائیں