نائبۃ الحسین حضرت زینب بنت علی

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے پیاری و لاڈلی بے خوف نڈر بہادر بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور فاتح خیبر اسد اللہ باب العلم حضرت علی علیہ السلام کے گھر 5 جمادی الاول 5 یا 6 ہجری بمطابق (یکم اکتوبر 626ء)کو مدینہ منورہ میں ایک بیٹی پیدا ہوئی جب ان کی ولادت باسعادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ سے باہر تھے تین دن بعد تشریف لائے اپنے معمول کے مطابق سب سے پہلے اپنے جگر کے ٹکڑے (فاطمہ بضعت منی) کے گھر تشریف لائے تو آپ کی پیاری نواسی آپ کی گود میں پیش کی گئی اپنے مبارک منہ میں کھجور کو چبایا اور وہ بابرکت لعاب دہن اس پیاری نواسی کے مبارک منہ میں ڈالا اور اس کا نام زینب رکھا اور فرمایا یہ اپنی پیاری نانی حضرت خدیجہ الکبریٰ کی شبیہہ ہے آپ اپنے بھائیوں کی طرح خوش قسمت وخوش نصیب ہیں جنھوں نے نبی کان و مکاں رحمت اللعالمین محبوب خدا کی مبارک آغوش میں کھیلے اور تربیت پائی آپ کی شادی اپنے چچیرے بھائی حضرت عبداللہ بن جعفر الطیار کے ساتھ حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں ہوئی آپ کا حق مہر 480 درہم مقرر کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹے علی‘ عون محمد اور عباس اور ایک بیٹی ام کلثوم عطا فرمائے آپ کا وصال 15 رجب 63 ہجری میں ہوا آپ کا مزار شام میں ہے آپ اپنے علم وفضل میں تمام قریش سے ممتاز مقام رکھتی تھیں زہد و تقویٰ فہم و فراست بہادری شجاعت آپ کے اوصاف میں شامل تھے فصاحت و بلاغت سلاست و روانگی دانائی تو آپ کو ورثے میں ملی تھی آپ اپنے وعظ میں اکثر قرآنی آیات پیش کیا کرتی تھیں آپ نے 37 ہجری میں درس واعظ و نصیحت دینا شروع کیا آپ نے بھائی کے ساتھ ایسی وفا کی جس کی رہتی دنیا تک مثال پیش کرنا ناممکن ہوگا آپ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہوں نے دین اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنی جان و مال عزت و آبرو اولاد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انتہائی مختصر قافلے کے ساتھ دشت کرب و بلاء میں ڈیرے ڈال دیے تھے اور اپنے دو لخت جگر عون و محمد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دیے ان کے صبر و قناعت کا اندازہ لگائیے اپنی آنکھوں کے سامنے بھائی بیٹے بھتیجے قربان کروا رہی ہیں اور زبان پر ایک حرف شکایت نہیں یہ تھا نانا کی تربیت کا کمال ماں اور باپ کی جرات و بہادری جو وراثت میں پائی تھی وہ اس وقت آشکار ہوئی جب آپ کو ابن زیاد اور یزید لعین کے دربار میں پیش کیا گیا ایسے درباروں میں بڑوں بڑوں کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں وہ مصلحتوں کے شکار ہو جاتے ہیں لیکن قربان جاؤں حضرت علی و حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہما کی پیاری بیٹی کے جو اس دربار میں کھڑے ہو کر نہ گھبرائی اور نہ ہی سہمی بلکہ ببانگ دہل اپنے بھائی کے حق پر ہونے کا اور یزید کے باطل ہونے کا واشگاف الفاظوں میں اعلان کیا ان کی بے باکی جرات ہمت صداقت شجاعت ان کے اس خطبے میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے جو انہوں نے یزید کے دربار میں دیا تھا جب قافلے کو کربلا سے دمشق لے جایا گیا تھا سب تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت پر اما بعد بالآخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا یزید کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دئیے ہیں اور رسول کی آل کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر در بدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے اور خلافت کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں مہلت دیتے ہیں یہ ان کے حق میں بھلائی ہے ہم انہیں مہلت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ گناہ میں زیادتی کریں اور ان کے لیے خوار کرنے والا عذاب ہے اے طلقاء (اے آزاد کردہ غلام کے بیٹے) (نفرت اور کم مرتبہ ہونے کا اظہار)کا اظہارکے بیٹے کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹھا رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایااے یزید یاد رکھ کہ خدا آل رسول پاک کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالا مال کر دے گا۔ خدا کا فرمان ہے کہ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردے نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں سے رزق دیے جاتے ہیں تو (یزید) جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ
ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا۔ تو نے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بدنما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے۔ تیری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستم گر لوگوں کے لیے خدا کی لعنت ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں