نئے سال کی آمد ایک دعوت فکر

ضیاء الرحمن ضیاء/آج ایک عیسوی سال گزر رہا ہے اور نیا سال شروع ہوچکا ہے، پور ی دنیا میں نئے سال کی آمد پر بے حد خوشیاں منائی جا تی ہیں کہ ایک سال گزر گیا اور ہم دوسرے سال میں داخل ہو رہے ہیں، ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جا تی ہیں، عیسائی اور دیگر غیر مسلم تو اس کی خوشیاں مناتے ہی ہیں ہم مسلمان بھی اس میں پیش پیش رہتے ہیں، نئے سال کی آمد پر کئی طرح کی خرافات کی جاتی ہیں اور اسے ایک خوشی کے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، غیر مسلموں کے لیے تو کچھ حرج نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنے دین سے سراسر منحرف ہیں مگر ہم مسلمانو ں کے لیے یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہی خرافات میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنے نئے ہجری سال کی آمد کی کچھ خبر نہیں ہوتی وہ اس طرح شروع ہوتا ہے جیسے ایک مہینہ مکمل ہوا اور دوسرا شروع ہو گیا ہے۔ ہمارا سن ہجری خالصتاً اسلامی سال ہے جو نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے شروع ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ مسلمانوں کے لیے ایک تاریخ مقرر کی جائے، اس کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت عمر ؓ کے سامنے ایک تحریر آئی جس پر فقط شعبان کا مہینہ درج تھا مگر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ رواں برس کا ماہ شعبان ہے یا گزشتہ سال کے شعبان کے مہینہ میں یہ تحریر تیار کی گئی ہے لہٰذا اس مسئلہ کے حل کے لیے مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا گیا اور تمام اراکین مجلس نے اپنی اپنی رائے پیش کیں مگر کوئی رائے قا بل قبول نہ تھی بلآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ رائے پیش کی کہ نبی کریم ؐ کی ہجرت سے اسلامی کیلنڈر کی ابتداء کرنی چاہیے یہ رائے سب کو پسند آئی۔عرب میں سال ماہ محرم سے شروع ہوتا تھا جبکہ نبی کریم ﷺ نے 8ربیع الاول کو ہجرت فرمائی تھی اس لیے دو ماہ آٹھ دن پیچھے ماہ محرم کی پہلی تاریخ سے اسلامی کیلنڈر کی ابتداء کی۔لہٰذا ہجری کیلنڈر خالص اسلامی کیلنڈر ہے اس لیے ہمیں اسے ترجیح دینی چاہیے۔ نئے سال کی مبارکباد دینا شریعت سے ثابت نہیں ہے البتہ اگر اس کی مبارک دے دی جائے یا کوئی مبارک دے تو جواب میں خیر مبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نئے سال کی ابتداء میں ہمارے مسلمان بھائی بہت سی خرافات میں پڑ جاتے ہیں، بہت زیادہ آتش بازی کرتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں، روپے پیسے کا ضیاع کرتے ہیں جو بذات خود گناہ کا موجب ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے، زندگی اللہ رب العزت کی عطا کردہ امانت ہے، اس کا درست استعمال انسان پر لازم ہے اور زندگی کا درست استعمال انسان کے لیے دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سرفرازی کا سبب ہے، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی اس امانت کو غلط استعمال کرنے اور اس کی نافرمانی میں گزارنے سے انسان ناکام و نامراد ہو جاتا ہے۔ یہ مسلم امت کا عقیدہ ہے اور تمام مسلمان اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ کل قیامت کے دن ہمیں اللہ رب العزت کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب پیش کرنا ہے، اس لیے ہمیں اپنے ہر عمل سے پہلے اس بات کو ضرور بضرور مد نظر رکھنا چاہیے کہ ہم جو عمل سر انجام دے رہے ہیں کیا ہم اس کے بارے میں بروز قیامت کوئی عذر پیش کرسکیں گے یا نہیں۔ ہم مسلمان غیروں کی دیکھا دیکھی ایسے اعمال اور خرافات میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان اس موقع پر بے موقع خوشی مناتے ہیں اور بہت سی اخلاقی حدود سے تجاوز کر کے ایسے ایسے غیر اخلاقی افعال سر انجام دیتے ہیں کہ جنہیں عقل سلیم رکھنے والا کوئی بھی شخص قبول نہیں کر سکتا، اکتیس دسمبر اور یکم جنوری کی شب کو نیو ائیر نائٹ کے نام سے منایا جاتا ہے جس میں آتش بازی کے علاوہ ناچ گانے اور شراب و کباب کی محفلیں سجائی جاتی ہیں جن میں نہایت غیر اخلاقی افعال سرانجام دیے جاتے ہیں، یہ تمام افعال ایسے ہیں جن کی کسی بھی مذہب میں اجازت نہیں ہے۔ نئے سال کی آمد خوشی منانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک دعوت فکر ہے کہ ہم اس شب اپنے گزرے ہوئے سال کا محاسبہ کریں کہ ہم نے اس سال میں کیا کمایا اور کیا کھویا ہم نے اس سال کتنی اللہ رب العزت کی فرمانبرداری کی اور کتنی نافرمانیاں کیں؟ ہم نے کتنی نمازیں پڑھیں اور کتنی ہم سے رہ گئیں ہم نے اس سال رمضان میں کتنے روزے رکھے ہم نے کتنی عبادات کیں اور ہم نے دین پر کتنا عمل کیا؟ اس کے علاوہ ہم جس شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ہمیں اس کے بارے میں بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنے شعبہ میں کیا کارنامے کیے لہٰذا نئے سال میں نے اپنے شعبہ میں نئی تحقیق کرنی ہے اس کے لیے اپنے احداف مقرر کریں تاکہ اس سے عوام الناس کو فائدہ پہنچے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں