میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام  

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے پہلے  دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں روم اور فارس ( ایران) فارس کے رقبے کی بات کی جائے تو اس میں ایران عراق پاکستان کا سندھ کا زیادہ تر حصہ بلوچستان اور پنجاب افغانستان اور آذربائجان کے علاقے شامل  تھے   پہلے پہل یہ مظاھر فطرت کی پوچا کرتے تھے بعد ازاں زرتشت جو آذربائجان کا ایک باشندہ تھا اس کی تعلیمات قبول کر لیں  مرور زمانہ اس کی تعلیمات بھی بدل دی گئیں جو وحدانیت کا پرچار پر مبنی تھیں 226 یا 227 عیسوی کو اردشیر نے ایران کو فتح کر کے ساسانی خاندان کی حکمرانی کی بنیاد رکھی اور کسریٰ ایران کا لقب اختیار کیا اس نے پوری مملکت میں تحریف شدہ زرتشت کے مذہب کو  اختیار کرنے کا حکم دے دیا زرتشت کے مذہب میں آگ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اس لیے اس کی پرستش کی جاتی تھی دوسری طاقت روم تھی جو یونان اٹلی اسکے ملحقہ علاقوں کے ساتھ ساتھ مصر اور شام کے رقبے پر مشتمل تھی ان کی حکومت قبل مسیح سے قائم تھی اھل روم نے پہلے یہودیت اور بعد ازاں عیسائیت قبول کر لی تھی روم کا حکمران ھرقل روم کہلاتا تھا ان میں ایک الہامی مذہب کے ماننے والوں کی ریاست تھی جبکہ دوسری  غیرالہامی مذہب کے ماننے والوں کی لیکن دونوں کی اخلاقی و معاشرتی اقدار تباہ وبرباد ہو چکیں تھیں جس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی اس وقت کئی معجزات ظاہر ھوئے ان میں سے دو کا ظہور ایرانی سلطنت میں ھوا  کسری ایران کا جو محل بغداد سے تیس کلومیٹر دور دریائے دجلہ کے کنارے مدائن میں تھا اس کے چودہ گنکرے گر گے اور اس کی دیوار میں دراڑ آگئی حیرت کی بات ہے اس کی دیواریں تیس فٹ چوڑی تھیں اس کے باوجود وہ پھٹ گئیں اور مجوسیوں کا وہ آتش کدہ جو تقریباً ایک ہزار سال سے روشن تھا وہ یکایک بجھ گیا  یہ اس بات کی نشانی تھی کہ جَآءَ ٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَٰطِلُ (حق آگیا اور باطل مٹ گیا) آج ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ذوق و شوق سے مناتے ہیں  جگہ جگہ محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ہیں ھدیہ درود وسلام پیش کرتے ہیں قم قمیں لگا کر چراغاں کرتے ہیں اپنے درو دیوار کو خوبصورتی سے سجاتے ہیں نعت خواں حضرات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہیں علماء و خطباء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان کا تذکرہ کرتے ہیں  ان کی سیرت مطہرہ کا بیان کرتے ہیں ان کو جو عظمت و رفعت بزرگی بلند مقام اللہ رب العزت نے عطا کیا ہے اس کے تذکرے کیے جاتے ہیں ضیافت میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے رات کے خاص اس پہر جس میں ولادت مبارکہ ھوئی تھی خوشی میں آتش بازی کی جاتی ہے بچوں کے نعتیہ اور قرات قرآن کریم کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ بچوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنگاری سلگائی جائے تاکہ ساری زندگی وہ اسی روش میں بسر کر دے سرکاری سطح پر سیرت کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھی جانے والی کتابوں کو ایوارڈ سے بھی نوازا جاتا ہے  یہ سارا کچھ ھونا بھی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو) تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با برکات سے بڑھ کر کون سی نعمت ھو گی جن کے گلی محلے کی قسمیں خود خدائے بزرگ و برتر کھائے جن کے چلنے پھرنے کمبل اوڑھنے چادر لپیٹے کا تذکرہ اپنی لاریب کتاب میں کرئے جن کی کنکریوں  مارنے کو اپنا مارنا اور جن کے بولنے کو اپنا بولنا جن کے ھاتھ کو اپنا ھاتھ اور جن کی رضا کو اپنی رضا اور جن کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی جن کے حلال کو اپنا حلال کرنا اور ان کے حرام کرنے کو اپنا حرام کرنا قرار دے جن کو رات کے ایک لمحہ سے بھی کم وقت میں زمین وآسمان جنت و دوزخ اور سدرہ المنتہیٰ تک کی سیر کرا دے جن کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے جن کی وجہ سے ھزاروں خداؤں سے بےزاری اور وحدہ لاشریک خدا کی پہچان ملی پھر در در کے سجدوں کی بجائے ایک ہی قادر مطلق کے سامنے جبین کو سجدہ ریز کرنے کی توفیق ملی ماں باپ بیٹی بہین بھائی کے رشتوں کو پہچان و عظمت ملی جن کی وجہ سے عورت (ماں)کے قدموں کے نیچے جنت بچھی سب سے بڑھ کر ان کے امتی ھونے کی سعادت ملی جن کا امتی ھونے کی دعائیں انبیاء کرام علیہم السلام کرتے رہے تو اس عظمتوں رفعتوں شانوں والے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر کیوں نہ خوشیوں اور مسرتوں کا اظہار کریں لیکن اس خوشی اور مسرت میں ھم نے اس بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کا جو مقصد تھا وہ بھول رہے ہیں  جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ ھوئی اس وقت معاشرتی بگاڑ اپنے عروج پر تھا ظلم وستم ناانصافی و حقوق تلفی جبر وتشدد  خدا فراموشی و توحید بیزاری عام تھی  اخلاق وشرافت کا بحران تھا اور انسان ایک دوسرے کے دشمن بن کر زندگی گزار رہے تھے ہمدردی اور محبت کے جذبات اخوت و مودت کے احساسات ختم ہوچکے تھے تمام ادیان کی تعلیمات میں تحریف ھو چکی تھی ھر طبقے نے من مرضی کے قوانین بنا رکھے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے بعثت کا مقصد و مدعا بیان کر دیا هُوَ الَّذِي أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُ عَلَى الدِّينِ (وہی ہے اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے) حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو اس دین کو تمام ادیان پر غالب کر دیا اتنے اچھے مساوات عدل وانصاف پر مبنی معاشی و معاشرتی اصول و قوانین دیے کہ لوگ جوق در جوق در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد چکر لگانے لگے اور  انسانی جذبوں مساوت رواداری سے عاری وہ دونوں بڑی طاقتیں خس و خاشاک کی طرح اڑ گئیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشی و معاشرتی قومی و بین الاقوامی اخلاقی و روحانی  اصول و قواعد و ضوابط نہ صرف دیے ہیں بلکہ اپنی حیات ظاھری میں ان کو نافذ کر کے دکھایا ہے لیکن آج ھم انہیں بھول گے ہیں ھمیں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جہاں خوشی و مسرت کا اظہار کرنا چاہیے اس سے کہیں زیادہ ان مقاصد کو اجاگر کرنا ضروری ہے جن چیزوں کا  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرنے کا حکم دیا ہے ان کو کرنے کا پختہ عہد کریں اور جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے ان سے رک جاہیں اللہ اور آس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھمیں ھمیشہ سچ بولنے اور سچائی کا ساتھ دینے اور برائی سے صرف نفرت نہیں کرنی بلکہ اسے روکنے کا بھی حکم دیا  ہے اور چغلی غیبت جھوٹ ڈاکہ زنی چوری ناانصافی عدم مساوات بے حیائی بداخلاقی گالم گلوج بدفعلی بغض عداوت نفرت جیسی برائیوں اور جرائم سے اپنے آپ کو روکنے کا حکم دیا ہے اسی طرح قومی سطح پر ھم عدم مساوات بلا تفریق رنگ ونسل مذہب و مقام و مرتبہ کے قوری انصاف پسے ھوئے طبقوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ظلم وبربریت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننا معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانا تعلیم کو عام کرنا ہی پیغام میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور ھمیں ان احکامات کو عام کرنے کی ضرورت ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں