میرے بچپن کے دن کتنے خوبصورت تھے

ہم نے 1980 ء کے اوائل میں آنکھ کھولی بچپن 90ء تک گزارا اس کے بعد لڑکپن اور پھر جوانی میں قدم رکھا سنہ 2000 ء تک راقم الحروف نے محبت، رواداری اور باہمی عزت و احترام معاشرے میں عام دیکھا جبکہ نئی صدی کے اوائل سے اب تک عدم برداشت باہمی محبت و عقیدت و احترام کا فقدان ہی دیکھا ہے جو آنیوالے ہر دن کے ساتھ مادیت پرستی اور طمع و لالچ کے بحر بیکراں میں غرق ہو رہا ہے۔ بہرحال میرا آج کا موضوع معاشرے کی سابقہ روایات بالخصوص اپنے گاؤں کے متعلق معلومات فراہم کرنے کے لیے ہے اس لیے بغیر طوالت تحریر کے مدعا پر آتا ہوں۔ہمارا بچپن خالصتاً گاؤں میں پیدا ہونے والے بچوں جیسا تھا جنہیں بہت بعد میں شہر کی ہوا لگی اس لیے ہم نے اپنے بچپن کا بے جد لطف لیا چار سال کی عمر کو پہنچے تو گاؤں کی مسجد میں ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم کیلئے داخل ہوئے پانچ برس کی عمر میں اپنے ہی گاؤں کے سرکاری سکول جو اس وقت مڈل تک تھا میں داخل ہوئے جن اساتذہ سے استفادہ کیا ان میں ہیڈ ماسٹر بشیر احمد بھاٹہ، ہیڈ ماسٹر شاہین کہوٹہ، ماسٹر رفیق بھکڑال، ماسٹر زاہد بھون، ماسٹر عبدالروف چوکپنڈوری ماسٹر محمد اختر گاڑ گجرال کے نام یاد ہیں۔ صبح سویرے ہم نے تختیاں ”چڑالی” میں دھو کر ان پر”گاچی(مٹی)” کا لیپ کرکے لے جاتے سکول میں دو دو کو جوڑ کر رکھتے تاکہ وہ خشک ہو جائیں۔سکول پہنچتے ساتھ ہمیں ایک ایک اڑھائی کلو گرام کے گھی کے ڈبے دیے جاتے اور سکول کے ”فور مین” کی قیادت میں ”کوری والے چوآ ” سے پانی بھرنے کی جبری مشقت کرائی جاتی (یہ جبری مشقت کے الفاظ مضمون کو رنگین کرنے کے لیے مستعمل کیے ہیں) پانی کے بعد سکول کے اساتذہ چبوترے پر براجمان ہوتے اور تمام طلباء کی اسمبلی ہوتی جس میں تلاوت قرآن پاک‘دعا (جسے ہم لب پہ آتی کہتے تھے) ہوتی آخر میں قومی ترانہ اور اس کے بعد اپنے اپنے کمروں یا بوہڑ کے بڑے درخت کے نیچے کلاس (یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کلاس صرف زبانی کلامی نہیں لگتی تھی بلکہ کئی بار بلکہ عموماً تھپڑوں اور ڈنڈوں سے کان پکڑائی اور مرغا بننے تک) لگتی تھی۔ تفریح جسے آدھی چھٹی کہا جاتا تھا اس میں باوا صابر کے بند اور چاچا نسیم کی دوکان کے ”پیپل منٹ” پتاسے،ریوڑیاں اور ”سلونی دال ” حسبِ معمول یا گنجائش کے مطابق تناول فرماتے تھے۔ چھٹی کے بعد شریف لڑکے اساتذہ سے پہلے انتہائی شریف ان کے ساتھ اور لڑنے والے سب سے آخر میں گھر کی طرف روانہ ہوتے چونکہ ”چڑالی والی کسی” لمبی گلی” اور ”تکیہ مراد شاہ” لڑائی کے لیے مختص جگہیں تھیں۔ اس سب میں ایک بات خوبصورت تھی کہ مارنے والے یا مار کھانے والے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر شکایت نہیں لگاتے تھے ہاں اگر کسی کو ظاہری چوٹ آ جاتی تو دونوں اطراف پہلے ہردو ”شخصیات ” کی تواضع کرتے پھر ایک دوسرے کو شکایت کرتے۔ بہرحال اس تمام لڑائی میں کبھی نفرت کا عمل دخل نہیں رہا دوسرے دن وہی ٹاٹ وہی شرارتیں اور شیطانیاں اور راضی نامہ ہو جاتا۔یہ دن تک کا معمول تھا گھر دن کا کھانا(لسی کے ساتھ اچار یا چٹنی اور مکئی یا باجرے کی روٹی یا کبھی کبھار گندم کی روٹی بھی دن کو مل جاتی تھی) کھانے کے بعد مال مویشیوں کی چراگاہ میں خدمات سر انجام دینے کے لیے بھیجا جاتا یہاں بھی دو مختلف اطراف میں واقع چراہ گاہیں تھیں ایک ”دکھالی کس” اور دوسری ”دکھالی رکھ” کس میں عموماً گائے بھینسیں چراتے تھے جبکہ رکھ میں بکریاں چرائی جاتی تھیں۔ (راقم الحروف کا ہردو اطراف مال مویشی چرانے کا تجربہ رہا ہے) کس کی طرف سب سے مشہور جگہیں یہ تھیں ”گبر” جاوا ” بالیے نی موہری ” کنگر” بیلا ” کنڈ ” دندی ” پڑی نکہ ” چھمبر” ملاچھہ” (یہ وہ جگہ ہے جہاں آج بھی ایک خوبصورت چشمہ موجود ہے اور دور دراز سے لوگ نہانے کے لئے اور ٹھنڈا یخ پانی پینے کے لئے آتے ہیں)۔جبکہ رکھ کی طرف ”کنگروڑہ” ”مروٹی”دپی ” رڑہ” ڈھیری” پرائیاں نی ڈھیری” رکابیاں والی دربار ” زیادہ مشہور تھے (اب تو یہاں کچھ ہی آثار ہیں ان جگہوں کے زیادہ تر سوسائٹیز کی نذر ہو چکی ہیں)۔ہمارے گاؤں کے علاقوں میں تکہڈ، ڈھوک چوہدریاں، نلہ، ڈھوک، ڈھوک طورا باز، ڈھوک مغل، اراراں گراں (دکھالی راجگان) پاراں گراں (دکھالی راجگان) ڈھوک کالا خان (دکھالی راجگان) بنی ڈھوک (موہڑہ ناراں) اپری ڈھوک (موہڑہ ناراں) اور عالم ڈھیری شامل ہیں (ان میں نئی آبادی کس اور ڈھوک چاچا رشید بھی موضع میں شامل ہیں)۔ہمارا بچپن غریبی میں ضرور گزرا لیکن ہم نے فطرت کی خوبصورتی کو بہت قریب سے دیکھا ہے ہمارے کھیلوں میں گلی ڈنڈا، کرکٹ، کبڈی اور مشغلوں میں کس میں نہانا، شعرخوانی سننا اور میلوں میں جانا شامل تھے۔ ہم نے مویشیوں کے ہل سے فصلیں کاشت ہوتی دیکھیں ہیں خود کٹائی بھی کی ہے جبکہ ”روایتی گاہ” بھی دیکھے ہیں۔ گھر میں ڈالڈا گھی کی جگہ گائے اور بکریوں کا گھی اور دودھ دیکھے ہیں۔ گھریلو شکر کولے اور شکر کی چائے تخ ملنگے کا شربت میٹھی روٹیاں (باٹ)کھائیں ہیں گھر کے گھی کا حلوہ اور پراٹھے، مکھن کے پیڑے بھی کھائے ہیں جو آج یہ تمام چیزیں ناپید تو نہیں ہیں لیکن مشکل سے ملتی ہیں۔ بہرحال ہم نے ایک بھرپور بچپن گزارا ہے سوچا کہ آپ کی خدمت میں پیش کروں ہمارے ہم عمر یاد کریں اور آج کل کے بچے اور جوان ہمارے بچپن سے آگاہی حاصل کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں