تحریر: امیر عبدالقدیر اعوان
اُردو زبان کی تاریخ تقریباًہزار سال کے لگ بھگ ہے۔چونکہ اس وقت کے بڑے لشکرِ حرب عربی،فارسی،پشتو اور ہند میں بولی جانے والی زبانوں کے حامل لوگوں سے مرتب ہوئے۔لامحالہ ترجمانی کے لیے ہر زبان کے الفاظ استعمال ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ لشکری زبان ” اردو” کے نام میں ڈھل گئی۔
لفظ ” اقبال ” کا مصدر عربی لفظ قَبَلَ ہے جو اچھائی،بہتری کے قبول کرنے یا بلند ی کے پانے وغیرہ میں مستعمل ہے۔اور جب اردو لغت میں لفظ “اقبال” کے معنی دیکھے جائیں تو خوش بختی،خوش حالی اور عروج کے ملتے ہیں۔لفظ” اقبال” کا متضاد ” اِدبار ” ہے۔جو کہ بد بختی،بد حالی اورتنزلی کے معانی میں آتا ہے۔
جب ہم یہ کہیں گے کہ میری قوم کا ” اقبال” تو لامحالہ لفظ کا ترجمہ مجسم ہو کے علامہ محمد اقبال کی صورت میں ہمارے سامنے آئے گا۔آپ 9 نومبر 1877 ء بمطابق 3 ذیقعد1294 ھ ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم سے کالج تک تعلیم وہیں حاصل کی پھر لاہور،یورپ اور انگلستان تک علم کی تشنگی مٹاتے چلے گئے۔سکول کے آخری اور کالج کے ابتدائی ایام سے ہی تاریخ آپ کے شاعرانہ ذوق کی گواہ ہے۔فلسفہ اور قانون دانی آپ کی پسند نظر آتے ہیں۔درس وتدریس میں آپ کی خدمات ہمیشہ آپ کی بلندئی فکرکی عکاسی کرتی رہیں گی۔
آپ کی شہرۂ آفاق تصانیف14 کے لگ بھگ ہیں۔آپ کی تصانیف کی جانے کتنی ہی تشریحات کی جا چکی ہیں اور آئندہ بھی کی جاتی رہیں گی۔آپ کے خطابات میں سر(Sir)،علامہ اور قومی شاعر تک کے الفاظ شامل ہیں۔آپکی ابتدائی تعلیم قرآن پاک سے شروع ہوئی اور زندگی کی انتہا، تمام پیچ وخم سے ہوتی ہوئی،عشقِ مصطفے ﷺ تک پہنچی۔نوجوانی اور مشرق ومغرب کے نازک سانچوں سے گزرتے ہوئے بھی با کردار رہے۔جس کی عکاسی آپ کا یہ شعر کرتا ہے۔
باچنیں زور ِ جنوں پاسِ کریباں داشتم درجنوں از خود نہ رفتن کارِ ہر دیوانہ نیست
(جنون کے اس زور میں بھی میرا گریبان کبھی چاک نہیں ہوا یہ ہر دیوانے کے بس کی بات نہیں کہ جنون میں بھی آپے سے باہر نہ ہو)
آپ کے جذبہ خودی کی بات،آپ کے مرد مومن کی بات ہو،آپ کی مغربی تہذیب پر آراء ہوں یا آپ کے عشقِ مصطفے کی جھلک غرض آپ کی پوری سوانح حیات ہی کیوں نہ کھول کر دیکھ لی جائے آپ نے اپنے تائیں پوری کوشش کی امت کو درخشاں عہدِ رفتہ کی یاد دلائیں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ذہنی آزادی سے آشنا کریں۔خصوصاً 1924-38تک کے انتہائی زبوں حالی کے دور میں آپ نے قومی شعور کو جگانے کی اتنی کوشش کی کہ آپ تو نہ رہے مگروہ قومی شعور وطن عزیز کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔1930 میں الہ باد کے صدارتی خطبہ میں آپ نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور یہی نظریہ مسلم لیگ کو دوبارہ متحرک کرنے کا سبب بنااور آج ہم ایک آزاد وطن کے باسی ہیں۔
آج ہمیں آزاد ہوئے 68 سال ہو چکے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس ملک کی بنیاد بنانے میں کیسے کیسے زیرک لوگوں کی انتھک محنتیں صرف ہوئی ہوں گی؟ اس کی بنیادوں میں کتنی بہنوں کی عزتیں قربان ہوئی ہوں گی؟کتنے بیٹو ں کی جانوں کے نزرانے دیئے گئے ہوں گے؟
میں نے اور آپ نے دینا کیا ہے ہم نے تو اپنے اجداد کی اقدار تک کو کھو دیا۔آج ہر فرد اپنے حقوق کی بات کرتا ہے کسی کو فرائض یاد نہیں۔کردار دیکھو، گفتار دیکھو،معاشرت دیکھو،معیشت دیکھو،حلیے دیکھو،لباس دیکھوکیا مسلمان معاشرے ایسے ہوتے ہیں ہمارے اجداد نے خود قربان ہو کے ہمیں آزاد ملک دیا،ہم اپنی اولادوں کو کیا دیئے جا رہے ہیں!سوچو! اے میری قوم!روز محشر ہو گا،اللہ پاک کا دربار ہو گا ہمارا کردار ہوگا اور شفاعت محمد رسول اللہ ﷺ کے بغیر چارہ نہ ہو گا۔علامہ اقبال ہمیں اُس دن کی یاد بھی کچھ اس دلا گئے ہیں۔
مکن رسوا حضور ِ خواجہ مارا حسابِ من زچشمِ او نہاں گیر
(حضور کی بارگاہ میں مجھے رسوا نہ کیجیے میرا حساب ان کی نگاہ سے بچا کر لیجیے)
آج جب میں اپنے معاشرے کو ادبارکی راہ پر دیکھتا ہوں فقط اک آہ نکلتی ہے۔
میر ی قوم کا “اقبال” کہاں ہے
28