میری آنکھوں کے سامنے کھیلتا مسکراتا اویس رشید

شاہد جمیل منہاس
کون تولے گا اب ہیروں میں تمھارے آنسو محسن
وہ جو اک درد کا تاجر تھا دکاں چھوڑ گیا
آج بھی اسی طرح ہنستا کھیلتا مُسکراتا ہوا اویس رشید میری آنکھوں کے سامنے ایسے رواں دواں ہے جیسے ابھی آ جائے گا اور چند لمحوں میں ڈھیر سارے مشورے دے ڈالے گا۔ اور اس کے جانے کے فوراََ بعد خاندان کے سب بڑوں کو اس کے مشورے کے مطابق عمل کرنا پڑ جاتا۔ کیونکہ کم عمری میں بھی بڑی بڑی باتوں کے ساتھ مفید مشورے اس کی ذہنی بڑہوتری کی عکاسی کرتے تھے۔ اویس میرا عزیز اور شاگرد بھی تھا۔ انتہائی صاف گو اور کھری بات کرنے والا۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ میں راولپنڈی کے ایک معروف ادارے راولپنڈی کالج آف کامرس مریڑ چوک کےB.Com کے طالب علموں کے ساتھ چار دن کے قیام کے لیئے کالام گیا تو نو سے دس گھنٹے کے سفر کے دوران اویس ایک لمحے کے لیئے بھی اپنی سیٹ پر نہیں بیٹھا۔ ہنس مکھ اور اُچھلتا کودتا ہوا سب کے دلوں کی دھڑکن بنا رہا ۔ راستے میں جتنی جگہوں پر ہم چائے پینے ، تصویریں بنانے یا کھانا کھانے کے لیئے رُکتے تو اویس میرے سامنے آ کر بیٹھ جاتا تا کہ اپنے والد کی خواہش کوپورا کر سکے کیونکہ اس کے والد صاحب نے مجھے خاص طور پر کہا تھا کہ ”چاندے“ کو اپنی نظروں کے سامنے رکھنا۔ بہت معصوم اور شرارتی ہے۔ اس دن میں نے دل میں سوچا کہ اگر لڑکپن معصوم اور شرارتی نہ ہو تو لڑکپن کیسا۔ سنجیدگی ایک عمر کے خاص حصے میں ہی اچھی لگتی ہے۔ کیونکہ میں خود اُنکا اُستاد ہونے کے باوجود 34برس کی عمر میں بھی اپنی حرکتوں سے بچوں کے ساتھ بچہ نظر آتا تھا اور آج بھی میرے شاگرد اس بات پر مجھے داد دیتے ہیں اور میرے ساتھ بہت خوش رہتے ہیں۔ اکثر میں پیار سے انہیں کہا کرتا ہوں کہ تم سب میری چڑیاں ہو اور چڑیاں چہکتی ہوئی اچھی لگتی ہیں۔ مختصر یہ کہ اس ٹرپ کے دوران میں نے اویس کے ساتھ بہت انجوائے کیا۔ پکنک کے تیسرے روز ہم نے دریا کنارے بہت بڑی دیگ میں کھانا پکایا۔ جب کھانا تقسیم کرنے کی باری آئی تو میں نے دیکھا کہ وہ پھر سب سے آگے تھا۔ ہم سب ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تھے اور میں نے اویس سے کہا کہ آو میرے پاس بیٹھ کر کھانا کھاو تو کہنے لگا پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے اساتذہ کو کھلائیں گے اور دوسری بات یہ کہ میں آپ کے سامنے بیٹھ کر صحیح طرح کھانا نہیں کھا سکوں گا۔ انتہائی با ادب اویس رشید بجلی کی طرح ایک لمحے میرے پاس ہوتا تو دوسرے لمحے دوسرے کونے پر نظر آتا۔ باپ کی کمر کا سہارا اور ماں کی آنکھوں کا تارا اویس اپنے اساتذہ میں بھی ویسا ہی مقبول تھا کہ جیسے گھر میں بڑوں کی دُعائیں سمیٹتا ہوا۔ اپنے دوستوں کے دلوں میں بسنے والا اویس جس دن کلاس سے غیر حاضر رہتا تو ایسے لگتا کہ جیسے پوری کلاس غیر حاضر ہو۔ اس کے ہوتے ہوئے ہم سب کو زندگی سی مل جایا کرتی تھی۔ خزاں کے موسم میں اچانک بہار آجانے کا نام اویس رشید تھا۔ایک دن معمول کے مطابق موٹر سائیکل پر اپنی والدہ کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے سودا سلف لانے کے لیئے اویس اپنے گاوں ٹیالہ سے چوک پنڈوری شہر کی طرف نکلا ہی تھا کہ ایک بس کی نظر ہو گیا۔ بس نے اتنی زور سے ٹکر ماری کہ زخموں سے چور چور ہو گیا۔ جلدی سے تحصیل کلر سیداں کے ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ہولی فیملی ہسپتال میں منتقل کرنے کا کہا۔ ان قاتل لمحوں میں اپنی بہنوں کے ہاتھوں میں خون لت پت اویس کو ہولی فیملی ہسپتال لے جایا گیا۔ جب مجھے اطلاع ملی تو میں نے اس کی باجی کو فون کیا جو
کہ میری بھابھی ہیں مگر ان کی آہ و زاری اور فریاد کے سوا کچھ نہ سُن سکا اور فون بند کرنا پڑا۔ جلدی جلدی ہسپتا ل پہنچا تو پھول جیسے اویس رشید کی جوان میت میری آنکھوں کے سامنے تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سارے ہسپتال کے لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوں اور اویس میٹھی نیند سویا ہوا ہو۔ ایسی جوانی کی موت جس نے ہر آنکھ اشکبار کر د ی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب گھر والے وہاں پہنچ گئے۔ میرے جسم سے جان نکلتی جا رہی تھی ۔ کیونکہ ابھی ہم نے اس کے سر پر سہرا بھی سجانا تھا۔ ماں باپ، بہنوں بھائیوں اور پھوپھی کی خوشیوں کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ بی کام کے بعد یونیورسٹی میں اویس کا جب داخلہ ہواتو اس کے والد راجہ رشید صاحب خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے اور مجھے خاص طور پربتایا کیونکہ میں اس کا اُستاد بھی تھا۔ آج اویس کے سب گھر والے اس کے بغیر اُداس اور غمگین رہتے ہیں۔والدہ کی کل کائنات ان کا بیٹا اویس رشید جنوری میں سب کو داغ مفارقت دے گیا اور اب ہمیں جنوری سے ڈر لگتا ہے۔ اویس کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ”اگر تمھارے اعمال سے خُدا کی مخلوق خوش ہے تو سمجھ لو کہ تمہارا ربّ بھی تم سے خوش ہے“۔ اویس سے خُدا کی مخلوق واقعی خوش تھی خاص طور پر اسکے والدین اور ارد گرد کے مکین ۔کچھ لوگ مر کر بھی امر ہوجاےا کر تے ہیں اور اویس رشید ان میں سے ایک ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی آجائے گا اور کہے گا ”میں ہوں ناں“ یہاں پر دانشور اشفاق احمد کی ایک بات یاد آ رہی کہ ”ہم میں سے زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا۔ اورجو دلوں میں زندہ وہی رہتے ہیں جو خیر بانٹتے ہیں محبتیں بانٹتے ہیں اور آسانیاں بانٹتے ہیں“۔ بالکل ایسے ہی اویس رشید مرحوم آج ہمارے دلوں میں زندہ ہے کیونکہ وہ آسانیوں کا سمندر تھا۔ دراصل اویس رشید کو اللہ نے شہادت کی موت عطا کی ہے۔ ایک تو وہ طالب علم تھا دوسرا حادثاتی موت کا شکار ہوا۔ یقینا خون کا پہلا قطرہ گرنے سے پہلے اویس جنّت میںداخل ہو چکا تھا۔ یہ بات الگ ہے کہ وہ یاد بہت آتا ہے۔ اوےس کے جانے کے چنددن بعد میں نے دیکھا کہ اویس کی پھوپھی اس کی تصویر سے ایسے باتیں کر رہی تھی کہ جیسے اویس ان کے سامنے بیٹھا ہوا ہو۔اس دن مجھے پتّہ چلا کہ سچّی محبت کس کو کہتے ہیں۔
کسی کے یوں بچھڑنے پر
کسی کے یاد آنے پر
بہت سے لوگ روتے ہیں
کہ رونا اک روایت ہے
محبت کی علامت ہے
میں ان پر بیچ راہوں پر
غم جاناں سے گھبرا کر
روایت توڑ جاتا ہوں
تمھاری یاد آنے پر میں اکثر مسکراتا ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں