میدان جنگ سے غازی بن کر لوٹنا میرے لیے اعزاز‘ امیر افضل

خطہ پوٹھوہار شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین یہاں کے بہادر اور نڈر فوجی جوانوں نے ہر مشکل گھڑی میں جب بھی دشمن نے مملکت خداداد کیطرف میلی آنکھ سے دیکھا دشمن کے ناپاک عزائم کو ہمیشہ خاک میں ملا دیا آج خطہ پوٹھوہار کے اس بہادر سپوت کا تذکرہ قارئین اکرام کے پیش خدمت ہے جنہوں نے 1971 کی پاک بھارت جنگ میں کئی گنا بڑے دشمن کا میدان جنگ میں ڈٹ کر مقابلہ کیا اور غازی کے عظیم رتبے پر سرفراز ہوئے ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ کے گاؤں دھیری راجگان کے رہائشی رسالدار غازی امیر افضل خان25مارچ 1952 کو یوسی بشندوٹ کے گاؤں دھیری راجگان میں پیدا ہوئے آپکے والد کا نام صوبیدار حکم داد تھا جو تاج برطانیہ کے تحت جنگ عظیم میں حصہ لے چکے تھے غازی امیر افضل خان نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول ساگری سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا بعدازاں مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیے گورنمنٹ گورڈن کالج راولپنڈی میں داخلہ لیا زمانہ طالبعلمی میں والی بال باسکٹ بال اور کبڈی کے مایہ ناز کھلاڑیوں میں آپکا شمار ہوتا تھا دوران تعلیم آپ نے فارغ اوقات میں ٹائپنگ کی مہارت حاصل کر لی اسی دوران آپ نے بینک میں ملازمت کے لیے کلرک کی اسامی کے لیے درخواست دی اور آپکو بینک میں ملازمت مل گئی آپکی رگوں میں وطن کی محبت اور دفاع کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا آپ نے بینک کی ملازمت ٹھکرا کر فوج میں بھرتی ہونے کو ترجیح دی آپ 6اپریل 1971کو پہلی کھڑی ہونے والی آرمڈ کور میں بھرتی ہو گئے اور ابتدائی فوجی ٹریننگ کا آغاز آرمڈ کور سنٹر نوشہرہ سے کیا ازلی دشمن بھارت نے1971کو وطن عزیز پر شب خون مارا اور بڑی سرعت سے 8دسمبر1971کو 35 کلومیٹر تک اندر گھس آیا آپکی کور کو حیدر آباد سندھ کھوکھرا چھور کے علاقے میں تعینات کردیا گیا اور کمپنی کمانڈر میجر مجتبیٰ اور ٹروپ گروپ لیڈر کیپٹن ضیا کے زہرکمان دشمن کیجانب پیش قدمی شروع کردی صبح 4بجے آپکا دشمن کیساتھ آمنا سامنا ہوا آپکی کور نے دشمن پر تابڑ توڑ حملے کیے اور دشمن کی نہ صرف پیش قدمی روک دی بلکہ نہ صرف دشمن کو زمینی سطح پر بھاری جانی ومالی نقصان پہنچایا بلکہ فضا میں بھی انکے کئی جنگی جہاز مار گرائے اور دشمن کو گیدڑ کی طرح دم دبا کر بھاگنا پڑا تاہم شکست خوردہ دشمن کو چین نہ آیا 13دسمبر1971 کو دشمن نے دوبارہ حملے کیلیے فضائی کمک طلب کی دشمن کی ٹینکوں نے آگ برسانا شروع کردی دشمن کے جنگی جہازوں نے بھی زبردست بمباری شروع کردی اسی مڈ بھیڑ میں ایک گولہ امیر افضل کے ٹینک پر آگرا جس سے دفعہ دار محمد سوار عثمان اور دوست محمد موقع پر جام شہادت نوش کر گئے اور امیر افضل خان کو شدید زخمی ہونے کے باوجود معجزانہ طور پر آپکو نئی زندگی ملی اور میدان جنگ سے غازی بن کر لوٹے زخمی حالت میں آپکو سی ایم ایچ حیدر آباد میں منتقل کردیا گیا ایکسرے رپورٹ کے مطابق آپکے جسم پر متعدد زخم جبکہ آپکی بائیں ٹانگ میں 75شیل کے ٹکڑے برآمد ہوئے ڈاکٹروں کے مشاورتی بورڈ نے آپکی ٹانگ کاٹنے کا فیصلہ کیا آپ
نے ڈاکٹروں کو اس عمل سے روک دیا تھا تاہم آپکو میڈیکل رول کے مطابق کیٹیگری سی میں ڈال دیا گیا مگر اسکے باوجود آپکے جوش وجذبے
میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور ازسر نو وطن کے دفاع میں سرگرم ہوگئے 1982میں سعودی عرب کے دفاع کا فریضہ سرانجام دینے کی خاطر خالد بن ولید بریگیڈ میں شامل تبوک کے مقام پر اپنی فوجی خدمات پیش کیں 1971میں آپکی ٹانگ کی سرجری ہوچکی تھی بعدازاں سعودی عرب میں دوران تعیناتی 1986 میں دوبارہ سرجری کی گئی شدید تکلیف کے باوجود آپکے دفاع وطن اور جذبہ حب الوطنی میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی 3 سال تک سعودی عرب میں فوجی خدمات کی ادائیگی کے بعد 1987 کو وطن واپس لوٹے اور نئی کھڑی ہونے والی یونٹ 38 کیو 40 سندھ رجمنٹ میں پوسٹنگ ہوئی ٹانگ کی سرجری کے باوجود آپکی اے سی آر آؤٹ اسٹیٹنگ تھی جسکو مدنظر رکھتے ہوئے آپکو نائب رسالدار اور پھر ایک سال بعد رسالدار یعنی صوبیدار کے عہدے پر ترقی ملی آپ دوران سروس لاہور‘ملتان‘حیدر آباد اور اکاڑہ میں فوجی خدمات پیش کیں اسی دوران آپکو سپورٹس کی سرگرمیوں میں نمایاں کارگردگی اور حربی خدمات کے صلے میں کئی فوجی اعزازات سے نوازا گیا آپ 6اپریل2001 کو اپنے سینے پر غازی کا تمغہ سجائے فوجی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو گئے آپ 2004 سے 2008 تک بطور زکوۃ اورعشر کمیٹی چیئرمین کے فریضہ سرانجام دیا دسمبر 2020 کو آپکو دوبارہ ٹانگ میں شدید تکلیف محسوس ہوئی جسکے باعث آپکو سی ایم ایچ راولپنڈی میں داخل کرادیا گیا آپکی ٹانگ اب مفلوج ہو چکی تھی جسکی وجہ سے ڈاکٹروں کو آپکی بائیں ٹانگ کاٹنی پڑی دوران انٹرویو وہ ویل چیئر پر بیٹھے خاصے ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے انکا کہنا تھا کہ میری یہ ہمیشہ سے آرزو رہی کہ دفاع وطن کی خاطر میدان جنگ میں اپنی جان کا نزرانہ پیش کروں تاہم میدان جنگ سے غازی بن کر لوٹنا بھی میرے لیے بڑا اعزاز ہے انہوں نے نوجوان نسل کو پیغام دیا کہ مملکت خداداد پاکستان کو بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اس لیے ملک وقوم کی خدمت کو اپنا طرہ امتیاز بنا لیں اور ملک کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں آخر میں انہوں نے ویل چیئر پر بیٹھے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر پرجوش انداز میں پاکستان زندہ باد اور افواج پاکستان پائندہ باد کا نعرہ لگایا اس موقعہ پر آپکا جوش وجذبہ قابل دیدنی تھا ایک لمحے کیلیے اس ادھیڑ عمر میں ٹانگ کٹ جانے کے باوجود ویل چیئر پر بیٹھے صوبیدار امیر افضل جیسے قوم کے بہادر بیٹے کا دفاع وطن کا جذبہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ ان بہادر سپوتوں کی موجودگی میں دشمن ہمارے ملک کیطرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی کھبی جرات نہیں کرسکتا

اپنا تبصرہ بھیجیں