میت والے گھر سے کھانا‘ علماء آواز بلند کریں

جس سماج میں ہم زندہ ہیں۔وہاں غم بہت زیادہ اورخوشی بہت ہی کم ہے۔نظام کوئی بھی ہو ترتیب تو رکھنا پڑتی ہے مگر جہاں رسم ورواج کے نام پر ترتیب کو بگاڑا جائے وہاں نہ توازن کااحساس ملتا ہے نہ انصاف کی نوبت آتی ہے گویا ثابت ہوا کہ رسم ورواج کے نام پر بنا ء ظام اور من مانی اجتماعی مفاد کے دشمن ہیں۔ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر تماشین ہے ہم برے رسم رواج کے خلاف آواز اُٹھانے کے بجائے خود انکا حصہ بن کر برُی روایات کو پروان چڑھانے میں حصہ ڈالتے ہیں۔شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات میں ناچ گانا۔ڈالر پاونڈ اور نوٹ لٹانا۔ڈھول ڈھمکے سب کچھ اس سماج میں ضروری سمجھا جاتا ہے۔اس حد تک تو معاملہ سجھ میں آتا ہے کہ یہ سب کرنے والے اپنی دولت اور حیثت کے مطابق خوشی مناتے ہیں جو ان کا حق ہے لیکن معاشرے میں سب سے قیبح رسم وہ ہے جو امیروغریب سب یکساں طور پر ادا کرنے پر مجبور ہیں ہر فرد ہر برادری اور ہر خاندان اس رسم پر مجبوراً عمل کرتا ہے

۔میت والے گھر میں مہمانوں کو کھانا کھلانے کی ابتدا جس دور میں ہوئی اور جس نے بھی کی اس نے معاشرے کے ساتھ بڑی زیادتی کی۔ جنازے پڑھتے مہمانوں کو کھانا کھا کر جانے کی صدا سننے کو نہ ملے تو ہم دکھی خاندان کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے یہ سوچے بغیر کہ اس گھر کے سربراہ کی مالی حیثیت کیا ہے۔ہمارے آباؤ اجداد کی تو یہ روایت نہیں تھی ماضی قریب میں تو فوتگی والے گھر کم از کم تین روز تک آگ نہیں جلنے دی جاتی تھی اہل محلہ،برادری اور گاؤں کے لوگ اس گھرانے کو کھانے پہنچاتے تھے لیکن آج وہ روایت دفن کردی گئی ہیں۔یقیناً کھانے کھلانے کی اس رسم کی بنیاد بھی کسی نودولتیے نے ہی رکھی ہوگی جس کا خمیازہ آج کا غریب بھگت رہا ہے۔معاشرہ اس پر مکمل طور خاموش ہے۔کیونکہ یہاں سوال اُٹھانے والے کی زبان کاٹ دی جاتی ہے احساس کو زخمی کردیا جاتا ہے ہم اسی لیے نہیں سوچتے کہ ان عیوب کے باعث ہم کہاں پہنچے اور کہاں کھڑے ہیں ایک وقت تھا کہ ہمارے چہروں پر اضمحلال کے بجائے اطمینان تھا ہمارے دلوں میں وسوسوں کے بجائے اعتماد تھا آج ہمارے چہروں پر اضطراب اور ویرانی کیوں ہے وجہ معاشرتی ناہمواری ہے

المیہ یہ ہے کہ 23 کروڑ کی آبادی میں دولت پر صرف ایک کروڑ افراد قابض ہیں دولت اور وسائل کی غیرمنصفافہ تقسیم اور ان کروڑوں افراد کے اسراف نے پسماندہ اور غریب عوام کے چہروں پر خواہشات کی عدم تکمیل کی ویرانی ہے۔سماج میں میت کے گھر سے کھانے دینے کی رسم بھی غریب لوگوں پر زیادتی کے مترداف ہے اس غیر ضروری رسم کے خلاف علماء اور اج کا نوجوان بہتر آواز اُٹھا سکتا ہے۔بیول اور اردگرد کے علاقوں میں اس پر سب بہتر اور توانا آواز یوتھ سوسائٹی کی ہوسکتی ہے جس کے تمام ممبران انتہائی مخلصی خلوص نیت کے ساتھ انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں اگر یوتھ سوسائٹی اس معاشرتی برائی کے خلاف بھرپورآواز بلند کرئے عوام کو اپنا ہم آواز بنائے اور پوری قوت سے اس قبیح رسم کے خاتمے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں تو مجھے قوی امید ہے کہ وہ یہ پہاڑ گرا سکتے ہیں۔ ان کی کوشش پر انشااللہ کوئی نہ کوئی لبیک کہتے ہوئے پہل ضرور کرئے گا اگر یوتھ سوسائٹی کے جوان یہ کرگذرے یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا جو برسوں یاد رکھا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں