میاں بیوی عمران خان کے سپاہی بن گئے/ شہزادرضا

تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی عوام نے دنوں میں تبدیلی کے خواب دیکھے لیکن کسی بھی ریاست یا کسی بھی شہر میں دنوں میں تبدیلی ممکن نہیں جہاں 70سالوں میں مسائل حل نہیں ہو سکے وہاں سو دنوں میں تبدیلی کیسے ممکن ہے ؟سو دنوں میں حکومت اپنی سمت متعین کرتی ہے اسی منصوبہ بندی کے تحت ادارے کام کرتے ہیں اور پھر اس کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہوتے ہیں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما کرنل (ر)ظفر ملک اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر نازیہ نیاز کے ساتھ پنڈی پوسٹ نے نشست کا اہتمام کیا جو قارئین کی نذر ہے کرنل (ر) ظفر ملک کا تعلق گجرات سے ہے اور ان کی اہلیہ کا تعلق کوٹلی آزاد کشمیر ہے دونوں ہی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں گزشتہ عام انتخابات میں انھوں نے این اے 57,59,52,53اور پی پی 10میں تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز کے ساتھ مل کر انتخابی مہم چلائی اوران کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ۔عملی سیاست میں آنے سے متعلق سوال کے جواب میں کرنل ظفر ملک نے پنڈی پوسٹ کو بتایا کہ 2011میں ریٹائر ڈ منٹ کے بعد عملی سیاست میں آگیا تھا 2013کے عام انتخابات میں این اے 104گجرات سے مجھے اور پی پی 108سے میری اہلیہ ڈاکٹر نازیہ نیاز کو ٹکٹ دیا تاہم سروس قوانین کے مطابق دو سال تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی پابندی کی وجہ سے میں نے الیکشن لڑنے کی ذمہ داری ایک اور کھلاڑی کو سونپ دی تھی ایک سال قبل میں فیملی کے ہمراہ روات انکلیو قاسم آباد منتقل ہوا تھا اور میں نے اپنا رہائشی پتہ اور ووٹ دونوں این اے 57میں منتقل کروا لیے ہیں سیاست سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا میں سمجھتا ہوں خدمت خلق کے لیے کوئی باؤنڈری نہیں ہوتی آپ کہیں بھی رہ کر عوام کی خدمت کر سکتے ہو گو کہ آپ کے پاس ویژن ہو اور آپ کسی مقصد کے لیے کام کر رہے ہوں آبائی علاقہ چھوڑ کر روات منتقل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں نے اپنی آخری سروس روات فوجی فاؤنڈیشن ووکیشنل ٹریننگ سنٹر میں کی گردونواح کی ہزاروں طالبات نے یہاں سے سلائی کڑھائی کورس کیا انھوں نے بتایا کہ میری پہلی ملاقات عمران خان سے 2011میں انکی رہائش گاہ زمان پارک لاہور میں ہوئی تھی میں نے انھیں انتہائی سادہ لباس میں پایا نماز کا وقت ہوا تو سب سے اجازت لے کر نمازکی ادائیگی کے لیے چلے گئے میں اسی دن ان کی شخصیت کا معترف ہو گیا تھا اس کے بعد سے اب تک تحریک انصاف کی کامیابی کے لیے بے لوث ہو کر کام کیا اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا گزشتہ دنوں میں نے اور میری اہلیہ نے شمالی پنجاب کے نو منتخب صدر عطا اللہ شادی خیل سے ملاقات کی اور انھیں عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی میری خواہش ہے مجھے مرکزی سطح پر کوئی ذمہ داری سونپی جائے جس کے لیے میں اپنی درخواست پارٹی کو جمع کرواؤں گا اگر پارٹی نے ٹکٹ دیا تو آمدہ بلدیاتی ‘صوبائی یا قومی انتخابات میں میری اہلیہ حصہ لے سکتی ہیں تاہم میرا انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ۔پی پی 10میں تحریک انصاف کے ہارنے کی وجہ پوچھنے پر ان کا کہنا تھا کہ اس میں زیادہ قصوار میڈم نوید سلطانہ خود ہیں جن کے پاس پارٹی ٹکٹ کے سوا کوئی اور سیاسی کیرئیر نہ تھا انھوں نے انتخاب صوبائی اسمبلی کا نہیں بلکہ یونین کونسل کا سمجھ کر لڑا میں نے خود ان کی کمپین چلائی ان کا جلسہ کروایا تھا ۔عام انتخابات کے دوران صداقت علی عباسی‘ راجہ خرم نواز‘علی نواز اعوان‘ غلام سرور خان اور عامر کیانی کے حلقوں میں جا کر نہ صرف مہم چلائی بلکہ جلسے اور کارنر میٹنگز کے لیے دن رات ایک کیا ۔ڈاکٹر نازیہ نیاز نے پنڈی پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ماسٹرز پولٹیکل سائنس میں کر رکھا ہے جبکہ میں گائنا کالوجسٹ بھی ہوں۔ میرے داد ا اپنے علاقے میں’’ سرپنج ‘‘ (فیصلے کرنے والا)تھے ہمارے گھر میں لوگوں کے فیصلے ہوا کرتے تھے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے لوگ دادا جی کے پاس آیا کرتے تھے ان سے مشاورت کیا کرتے تھے میرے تایا نے عملی سیاست میں حصہ لیا جنھیں دیکھ کر مجھے بھی سیاست میں آنے کا شوق اسی وقت ہو گیا تھا بعدازاں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کوٹلی میں پل کی تعمیر کے افتتاح کے لیے آئیں میں نے انھیں دیکھا ان کی باتیں سن کر ان سے متاثر ہو گئی اور یہ ٹھان لیا کہ ماسٹرز پولیٹیکل سائنس میں کروں گی اور عملی سیاست میں حصہ لوں گی میں بہت شکر گزار ہوں کرنل صاحب کی جنھوں نے مجھے سپورٹ کیا میں نے اپنی سیاست کا آغاز بیرسٹر سلطا ن محمود چوہدری کی پارٹی( پیپلزمسلم لیگ) سے کیا تھا لیکن محترمہ کی شہادت کے بعد جب وہ پاکستان پیپلزپارٹی کا حصہ بنے تو میں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی کیوں کہ اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی روایتی سیاست کر رہی تھیں۔کوٹلی میں بچیوں کو بمشکل میٹرک تک تعلیم دلوائی جاتی ہے پھر اس کے بعد گھریلو خاتون کے طور پر زندگی گزارنی پڑتی ہے میں سمجھتی ہوں خواتین مردوں سے بالکل کم نہیں ہر ایک شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی بھی کسی کی بہنیں ‘مائیں اور بیٹیاں ہیں ہمیں خواتین کو عزت دینی چاہیے جو اس ملک کا 52فیصد ہیں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور عمران خان میرے لیے آئیڈئیل ہیں یہ وہ شخصیات ہیں جنھوں نے ہمیشہ پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہا عمران خان نے کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی کینسر ہسپتال اور نمل جیسی جامعہ اس قوم کو دی جو دنیا کی چند بہترین جامعات میں شامل ہے ۔اس سوال جواب میں کہ اگر آپ کچھ بن جاتی ہیں توخواتین کے لیے کیا کریں گی اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ معاشرے میں موجود مظلوم خواتین کے حقوق کے لیے کام کروں گی ان کی تعلیم اور حقوق دلوانے کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھوں گی ان کا کہنا تھا عمران خان قوم کی امید بن کر سامنے آئے انھیں نہ صرف پاکستان میں رہنے والے بلکہ بیرون ملک مقیم افراد نے بھی بھرپور سپورٹ کیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جو پالیسیاں قومی سطح پر تشکیل دی جارہی ہیں ا ن کے ثمرات جلد عوام کو ملنے شروع ہو جائیں گے عمران خان کا پیغام قوم تک پہنچانے میں میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے میڈیا اگر مثبت پالیسیوں کے تحت کام کے تو معاشرے میں ٹھہراؤ اور توازن آج بھی ممکن ہے ان کا کہنا تھا کہ گجرات میں ایک بڑے حلقہ احباب کو چھوڑ یہاں منتقل ہوئے ہیں ہمارا مشن صرف خدمت ہے ہم جہاں بھی رہیں عوامی خدمت کا یہ مشن جاری رہے گا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں