Categories: کالم

میاں بابر صغیر / جنگل کا قانون

ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ قانون کی پابندی نہ کرنا ہے۔ہم جو بھی کام شروع کرتے ہیں اس کو اپنے اندازوں اور اپنی مرضی سے شروع کرلیتے ہیں اور اگر اس کام کے متعلق کوئی خدشہ ذہن میں آجائے تو سب سے پہلا خیال یہی ہوتا ہے کہ دیکھی جائے گی جب وقت آئیگا تب وہیں دیکھ لیں گے۔چاہے وہ مسئلہ قانونی ہو یا اخلاقی ہو مذہبی ہو یا معاشی ہو۔اول تو ہماری حکومتیں بھی معاملات آج تک اسی طرح چلاتی آئی ہیں لہٰذا اگر عام آدمی بھی اسی طرح کرتا ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے اس نے یہ اسی معاشرے سے سیکھا ہے چونکہ وہ اس معاشرے کا حصہ ہے ہاں اگر قانون ہو بھی تو وہ قانون اتناپیچیدہ اور مشکل بنا دیا جاتا ہے کہ عام آدمی اس پر عمل کرنے کی بجائے اس کی تشریح میں ہی پھنستا رہتا ہے ہر ادارہ اس قانون کی تشریح اپنے اپنے تحفظات اورمفادات کے مطابق کرتا ہے۔اگر کچہری چلے جائیں اور قانون کی مدد کے لیے کسی وکیل سے رابطہ کریں تو ہر قانون کے اندرڈھیروں قانون نکل آتے ہیں اور ہر وکیل علیحدہ علیحدہ تشریح شروع کر تا ہے اور اگر کوئی بات ہمیں سمجھ میں آجائے یا کو ئی وکیل ہماری سمجھ میں آئے تو وکیل ہی قانون کے چکر لگوا لگوا کر تھکا دیتاہے مسئلہ حل ہونا ان کی اولین ترجیح نہیں ہوتی بلکہ مسئلے کو لٹکا دینا ہی ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے یعنی وہی ہوتا ہے کہ جب وقت آئے گا تو دیکھی جائے گی۔اگر ہم قانون کی مدد کے لیے تھانے جاتے ہیں تو پہلے آپ کی جیب میں پیسے ہونے چاہیں تھانے دار صاحب کی جیب گرم کرنے کے لیے پھر جس طرح کی مرضی ایف آئی آر کٹوالیں اگر پیسے نہیں ہیں تو آپ تھانے کے چکرلگا لگا کر تھک جائیں گے اور آپ کے مسئلے کے لیے تھانیدار صاحب کوکو ئی شِق نہیں ملے گی آخر میں رہ جاتے ہیں حکومتی احتسابی ادارے آپ جہاں بھی درخواست دیں گے یا تو وہ ردی کی ٹوکری کی نظر ہو جائے گی یا پھر دوسری فائلوں کے ساتھ اس کو بھی سرد خانے میں منتقل کردیا جائیگا۔اگر اس پر عمل درآمد کے احکامات ہو بھی جائیں تو پولیس یا متعلقہ ادارہ آپ کے پیچھے ایسے پڑے گا کہ آپ کے کپڑے بھی اتار لیے جائیں گے اور آپ کی جان معافی مانگ کر ہی چھوٹے گی کیونکہ اکیلے غریب آدمی کی نہ تو پولیس سنتی ہے اور نہ ہی قانونی ادارہ مدد کرتا ہے۔حکومت تو ہر قانون سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کروانے کے چکر میں رہتی ہے۔امیر لوگ اور بیورو کریٹس بھی اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ حکومت میں ہوتے ہیں یا ان کے عزیز رشتہ دار حکومت میں ہوتے ہیں بلکہ بعض کے تو دوست ہی اسی کام کے لیے ہوتے ہیں۔غریب لوگوں کے پاس پیسے دینے کے لیے تو نہیں ہوتے لہٰذا وہ منت سماجت کر کے بچ جاتے ہیں یا پھر کسی امیرکے غصے کا شکار ہو جاتے ہیں اگر قانون کی پابندی نہ کرنے سے امیر کو سزا ہوجائے یا کوئی قانونی نوٹس آجائے تو وہ پیسوں یا اپنی واقفیت کی بدولت کسی غریب کا کڑاکانکال دیتا ہے اس قانون کی زد میں جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے وہ ہمارا مڈل کلاس طبقہ ہے جس کو سفید پوش بھی کہا جاتا ہے۔مڈل کلاس طبقہ یا سفید پوش طبقہ کی آمدنی اور اخراجات بڑے نپے تلے انداز میں ہوتے ہیں ان کا بجٹ کافی محدود ہوتا ہے اور اگر بجٹ کے علاوہ اگر کوئی خرچہ آجائے تو ایک دفعہ تو اس کا کباڑہ نکل جاتا ہے ۔مثال کے طور پر جو آج کل بجلی و گیس کے زیادہ بل آرہے ہیں ان میں متاثر ہونے والے طبقہ میں مڈل کلاس طبقہ پہلے نمبر پر آتا ہے۔غریب لوگ تو مانگ بھی لیتے ہیں دھکے بھی کھالیتے ہیں منت سماجت بھی کرلیتے ہیں اس طرح وہ کسی نہ کسی طرح گزارہ کرلیتے ہیں مگر مڈل کلاس طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے اول تو کسی سے مانگ نہیں سکتا ہے اور اگر مانگے بھی تو اس کو کچھ نہیں ملتا حتیٰ کے ادھار کے لیے بھی اس کو کوئی کچھ نہیں دیتا مجبوراً اس کے پاس آخری راستہ قرض کا ہوتا ہے قرض یا تو بینک سے لیا جاتا ہے یا پیسوں کے بدلے کوئی نہ کوئی چیز گروی رکھ لی جاتی ہے یا پھر پرائیویٹ کمپنی سے دونوں صورتوں میں قرض دار کو سود اتارتے اتارتے ہی عمر گزر جاتی ہے۔یہ مڈل کلاس طبقہ ہی ہوتا ہے جو کسی بھی ملک کی خوشحالی میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہی وہ طبقہ ہے جو ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور سب سے زیادہ قانون کی پابندی کرتا ہے اس کا دارو مدار اورہر خوشی کا محور ریٹائرمنٹ فنڈ ہی ہوتا ہے حالانکہ وہ فنڈاس کو اس وقت ملنا ہوتا ہے جب وہ اپنی عمر کابہترین اور زیادہ تر حصہ گزار چکا ہوتا ہے اس کے بچے پڑھ لکھ چکے ہوتے ہیں اور اس کی بچیوں کی شادیا ں ہو چکی ہوتی ہیں۔اول تو وہ سارا فنڈ پہلے سے لیے قرضوں میں ہی پورا ہوجاتا ہے اور اگر مل بھی جائے تب تک اشیا ء کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے کوئی خاص معنی نہیں رکھتا ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ جب بھی بجٹ بنتا ہے وہ غریبوں پر جہاں بوجھ ہوتا ہے وہاں مڈل کلاس کو بھی غربت کی طرف دھکیلنا شروع کردیتا ہے اور اس طرح مڈل کلاس طبقہ غربت کی بارڈر لائن تک پہنچ جاتا ہے اگر صرف مڈل کلاس طبقے کو ہی مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ بنایا جائے تونا صرف مڈل کلاس طبقہ ملک کی معاشی صورتحال میں استحکام کا باعث بنے گا بلکہ وہ غربت کے خاتمہ میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اپنی خوشحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر خاندان میں تین سے چار افراد کی مدد کرسکتا ہے جو خانساماں ،مالی ،چوکیدار،ڈرائیور ،گھریلو ملازم،یا گھر یلو ملازمہ کی صورت میں ہو سکتا ہے۔{jcomments on}

admin

Recent Posts

دھمیال کلیال روڈ صدر بیرونی کے علاقہ میں پیدل چلتے دو افراد پر موٹر سائیکل سوار کی فائرنگ

راولپنڈی عادل جان بحق اور جابر نامی بندہ زخمی زخمی اور ڈیڈ باڈی کو ھسپتال…

2 hours ago

کہوٹہ کار اور سوزوکی میں تصادم متعدد زخمی

کہوٹہ(نمائندہ پنڈی پوسٹ)کہوٹہ کے علاقہ جیوڑہ میں رانگ سائیڈ سے آنے والی کار نے سوزوکی…

4 hours ago

مسرت شیریں کے نام ایک شام

اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے ہال میں اس وقت ایک دلکش اور یادگار منظر…

10 hours ago

*کشمیری بہن بھائیوں کے حقوق کے محافظ ہیں اور رہیں گے: وزیراعظم

راولپنڈی (نامہ نگار سید قاسم) وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی…

14 hours ago

معذور افراد کو محض ہمدردی کے مستحق نہیں بلکہ بااختیار شہری تسلیم کیا جائے

معاشرتی انصاف اور مساوی حقوق کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد کی طرح، معذوری…

14 hours ago

ٹرمپ کا امن منصوبہ: گریٹر اسرائیل کی طرف ایک بڑا قدم

عالمی چوہدری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پرانی مسلم دشمنی اور یہود دوستی کا…

17 hours ago