مہنگائی کے بوجھ تلے دبے غریب عوام پر ایک بار پھر حکومت نے پیٹرول بم گرا دیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے 36 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے 39 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے۔ نئی قیمتیں بالترتیب 266 روپے 79 پیسے (پیٹرول) اور 272 روپے 98 پیسے (ڈیزل) مقرر کی گئی ہیں، جو فی الفور نافذ العمل ہو گئی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہمیشہ سے سیاسی و معاشی فیصلوں کا محور رہی ہیں۔ 1970ء کی دہائی سے لے کر اب تک ہر حکومت نے مختلف ادوار میں عالمی منڈی، آئی ایم ایف کے مطالبات، یا اندرونی مالی دباؤ کے باعث پیٹرول کی قیمتوں میں ردوبدل کیا ہے۔ تاہم موجودہ اضافہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک کی اکثریتی آبادی پہلے ہی بے روزگاری، مہنگائی، اور بجلی گیس کے نرخوں میں اضافے جیسے شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔
حکومت نے حالیہ اضافے کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور روپے کی قدر میں کمی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس میں کاربن لیوی کا اضافہ ، جو اب پیٹرول پر 75 روپے 52 پیسے اور ڈیزل پر 74 روپے 51 پیسے فی لیٹر ہو چکی ہے ، اصل محرکات میں شامل ہے۔ اس کا مقصد ریونیو بڑھانا ہے تاکہ حکومت بجٹ خسارہ کم کر سکے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے مطالبات کو پورا کر سکے۔
پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا براہِ راست اثر ٹرانسپورٹیشن، زراعت، انڈسٹری اور سب سے بڑھ کر عام صارفین پر پڑتا ہے۔ ڈیزل چونکہ پبلک ٹرانسپورٹ، مال برداری، اور زرعی مشینری میں استعمال ہوتا ہے، اس کے مہنگا ہونے کا مطلب روزمرہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اسی طرح پیٹرول کا مہنگا ہونا موٹر سائیکل، کار اور چھوٹے کاروباری افراد کی آمد و رفت کے اخراجات میں اضافہ کرتا ہے، جو بالآخر مہنگائی کے ایک نئے طوفان کو جنم دیتا ہے۔
اگرچہ کاربن لیوی کا مقصد ماحول دوست اقدامات کو فروغ دینا بتایا جاتا ہے، تاہم موجودہ پاکستانی سیاق و سباق میں اس کا نفاذ مالی بوجھ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس لیوی سے حاصل ہونے والی آمدن کو شفافیت سے ماحول دوست پالیسیوں پر خرچ کیا جا رہا ہے یا نہیں، اس پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔
عوامی سطح پر اس اضافے کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا، پریس اور گلی محلوں میں حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس موقع کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کر رہی ہیں جبکہ حکومت دفاعی پوزیشن میں نظر آتی ہے۔
حکومت اگر چاہے تو کچھ متبادل اقدامات کے ذریعے عوامی بوجھ کو کم کر سکتی ہے۔ صرف کم آمدنی والے طبقات کے لیے سبسڈی فراہم کی جائے۔ کاربن لیوی کے بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے۔ پیٹرولیم لیوی اور اس سے حاصل شدہ آمدن کا حساب کتاب شفاف انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔متبادل توانائی ذرائع کو فروغ دے کر عالمی منڈی پر انحصار کم کیا جائے۔
مہنگائی کے مارے ہوئے عوام پر پیٹرول بم گرایا جانا نہ صرف معاشی زیادتی ہے بلکہ حکومتی پالیسی سازی میں عام آدمی کے مفادات کو نظرانداز کرنے کی علامت بھی ہے۔ اگر یہی روش جاری رہی تو نہ صرف غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا بلکہ سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام کو بھی تقویت ملے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر عوامی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے معاشی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے، پیٹرول لیوی کو ختم کرے اور پیٹرول کی پرانی قیمت بحال کرے تاکہ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام پر بوجھ کم ہوسکے۔
