مہنگائی کا طوفان اور حکومت کی ذمہ داری

اس وقت عوام کے لیے وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ اشیا ء ِخوردو نوش اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہے۔ غریب عوام بنیادی ضرورت کی اشیاء خریدنے سے بھی قاصر ہو چکے ہیں۔ چند اشیاء ایسی ہیں جو روزمرہ استعمال کی ہیں، جن کے بغیر تو گزر ہی نہیں ہوسکتا جیسے آٹا اور گھی وغیرہ۔ دیگر تمام اشیاء ایسی ہیں جن کے بغیر انسان کسی نہ کسی طرح گزارا کر سکتا ہے لیکن آٹا اور گھی ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر کسی صورت گزارنا ممکن ہی نہیں ان کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ کہیں کوئی سستا پیکج والا آٹا نظر آجائے تو لوگ ان کے لئے ان کے حصول کے لیے قطاروں میں کئی کئی گھنٹے کھڑے رہتے ہیں اس کے باوجود کئی لوگ ان سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اب تو اتنی دیر قطارمیں کھڑے ہونے کے بعد لوگوں کی اموات واقع ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ جس معاشرے میں اتنی بنیادی ضرورت کی اشیاء بھی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہوں۔ وہاں دیگر اشیاء کی قیمتوں کا کیا حال ہو گا؟ لوگوں کی آمدن میں اضافہ نہیں ہو رہا، آمدن تو وہیں کی وہیں ہے حکومت تھوڑا بہت اضافہ کر بھی دے تو مہنگائی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں بہت معمولی محسوس ہونے لگتی ہے۔ حکومت عام طور پر کہتی ہے کہ ہم نے مزدوروں کی مزدوری میں اتنے فیصد اضافہ کردیا مگر مسئلہ یہ ہے کہ آگے اتنی مہنگائی ہے کہ عوام مزدوروں سے کام لینے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔وہ ان سے کام لیں گے تو مزدور کو مزدوری ملے گی۔ مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام انتہائی پریشان حالی کا شکار ہیں۔ عوام کھانے پینے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں کہ اسے کیسے پورا کریں، اپنے بچوں کا پیٹ کہاں سے پالیں؟ اوپر سے آئی ایم ایف کی لٹکتی ہوئی تلوار نے حکومت کو بھی قیمتیں کم کرنے سے روک رکھا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کا ہمیشہ یہی مطالبہ رہتا ہے کہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے اور ٹیکس مزید بڑھائے جائیں کیونکہ آئی ایم ایف کسی ملک کو قرض دیتا ہے تو وہ سب کچھ سوچ سمجھ کر دیتا ہے کہ جس ملک کو وہ قرض دے رہا ہے اس کے کتنے اثاثے ہیں۔ کیا وہ واپس کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے یا نہیں؟ اگر اس ملک کے پاس واپس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، خزانہ بالکل خالی ہے تو آئی ایم ایف ایسے ملک کو قرض دینے سے ہچکچاتا ہے۔ اس لیے وہ ایسی شرائط عائد کرتا ہے تاکہ اس کا قرض اور اس پر لگنے والا سود باآسانی اسے وصول ہو سکے۔
آئی ایم ایف کی ایسی شرائط کی وجہ سے حکومت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی نہیں کر پا رہی۔ اگرچہ حکمرانوں اور وزرا کا یہ جی چاہتا بھی ہے کہ وہ اشیا کی قیمتوں میں کمی کرے تاکہ سیاست اور آئندہ انتخابات میں ان کی جگہ بن جائے مگر وہ چاہنے کے باوجود کمی نہیں کر پا رہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو آئی ایم ایف ہے کہ آئی ایم ایف کو اگر وہ راضی کرتے ہیں تو انہیں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا اگر آئی ایم ایف کو راضی نہیں کرتے تو خدانخواستہ ملک کے دیوالیہ ونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے عوام پر مزید ٹیکس عائد کئے جائیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ حکومت کے لیے یہ ہے کہ حکومت کے پاس اپنی دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ حکومت کئی سیاسی جماعتوں کا ملغوبہ ہے جس کی وجہ سے اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو راضی رکھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی ایک جماعت بھی ناراض ہو جاتی ہے یا جماعت کے کچھ ارکان بھی ناراض ہو جائیں تو حکومت گر جائے گی۔ کیونکہ حکومت کل دو ووٹوں کی اکثریت پر قائم ہے، اس لیے حکومت مجبوری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو راضی کرکے اپنے ساتھ ملا کر چلے۔ سیاسی جماعتیں وزارتوں کے بغیر راضی نہیں ہوتیں، ہر جماعت کو
وزارت چاہیے اس لیے ان سب کو وزارتیں بانٹتے بانٹتے کابینہ کا حجم چھہتر وزراء تک پہنچ چکا ہے۔ اب اتنے زیادہ وزراء کو پالنا بھی غریب ملک کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن ہماری حکومت ڈیفالٹ کے خطرے کے باوجود، عوام کو مہنگائی کی چکی میں پسنے کے باوجود اتنی بڑی کابینہ کا بوجھ اس ملک پر لادے ہوئے ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ موجود ہ حکومت اپنے اس دور میں اور کچھ کر سکے یا نہیں، صرف مہنگائی پر ہی قابو پا لے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لے تو یہ اس کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔ ا س کے علاوہ انہیں اور کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بنیادی ضرورت کی اشیاء سے محروم عوام کو کسی طرح کی ترقی سے کوئی غرض نہیں ہے ان کے لیے سب سے بڑا مسیحا وہی ہے جو انہیں مہنگائی کی اس دلدل سے نکال دے۔ اس لیے حکومت اپنی تمام تر توجہ اس اہم ترین مسئلے پر مرکوز کرے اور بیان بازیوں کی بجائے عوام کے سامنے کارکردگی رکھے۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں