مہنگائی کا سدِّ باب یا انتشار

اس ملک میں سفید پوش آدمی کے لئے جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ آمدن کی چادر اس قدر چھوٹی ہو چکی ہے کہ سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں اور پاؤں ڈھانپتے ہیں تو سر ننگا۔ مہنگائی کا جن اپنے چراغ میں واپس جانے کا نام تک نہیں لے رہا۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ لوگ اپنے زیورات اور اثاثے بیچنے پر مجبور ہیں۔ خودکشی، چوری، جھوٹ، دھوکہ دہی اور غنڈہ گردی عام ہو چکی ہے۔ چور چوری کرنے کے بعد اس لئے مطمئن سوتا ہے کہ یہاں سب ایسے ہی ہیں۔ درزی کپڑا چراتا ہے، دودھ والا پانی ملا کے چوری کرتا ہے، ملازم اپنی ملازمت کے چند گھنٹے کم کام کر کے چوری کرتا ہے، اور مالکان اپنے سرکار سے ٹیکس چوری کرتا ہے۔المختصر یہ کہ سب ایک دوسرے سے آنکھ بچا کر اپنی اپنی جگہ غلط کر رہے ہیں۔ چند لوگ خوفِ خدا رکھتے بھی ہیں تو وہ اقتصادی مجبوریوں میں ایسے کَس دئیے گئے ہیں کہ الحفیظ الامان۔ مجھے حبیب جالب کے چند شعر یاد آ رہے ہیں۔
اب گناہ و ثواب بکتے ہیں
مان لیجئے جناب بکتے ہیں
پہلے پہلے غریب بکتے تھے
اب تو عزت مآب بکتے ہیں
شیخ، واعظ، وزیر اور شاعر
سب یہاں پر جناب بکتے ہیں
دور تھا انقلاب آتے تھے
آج کل انقلاب بکتے ہیں۔ (حبیب جالب)

آج میری نظر سے ابن ماجہ کے باب کتاب التجارت میں حدیث نمبر 2201 گزری،جس میں ”ابو سعید خدری رضی اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐکے عہد میں مہنگائی بڑھ گئی تو لوگوں نے عرض کیا، اللہ کے رسولؐ اگر آپ نرخ مقرر کر دیں تو اچھا رہے گا، آپ ؐ نے فرمایا، میری خواہش ہے کہ میں تم لوگوں سے اس حال میں جدا ہوں کہ کوئی مجھ سے کسی زیادتی کا جو میں نے اس پر کی ہو مطالبہ کرنے والہ نہ ہو“
گو کے اس دور میں غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھنے کا سبب قحط سالی اور بارش کا نہ برسنا ہوتا، یا مدینہ اور شام کے درمیان راستے کا خراب ہوتا، جہاں سے مدینہ کاغلّہ آتاتھا۔
مگر آج راستے ہموار ہیں، غلّہ اپنی پاک سر زمین اگلتی ہے، برسات اپنے وقت پر ہو رہی ہے (ما سوائے چند موسمی تبدیلیوں کے) اس کے باوجود اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
ہمیں من حیث القوم تدبّر اور نظم و ضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ حکمرانوں اور عوام النّاس کے درمیان اختلاف کے بجائے ہم آہنگی لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اشیائے خوردونوش کے معاملے میں بہت وسیع انّظر ہونا پڑے گا۔ کیونکہ نرخ کے کنٹرول کے معاملے میں بعض چیزیں حرام کے زمرے میں آتی ہیں اور بعض چیزیں انصاف پر مبنی ہیں اس وجہ سے جائز بھی ہیں۔
مثال کے طور پر قیمتوں کے کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہوں یا انہیں ایسی قیمت پر مجبور ہونا پڑے جس پر وہ راضی ہی نہیں، یا انہیں اس قیمت پر اسے اسکی محنت اور لاگت کا اصل بھی نہ مل رہا ہو تو ایسا کرنا سرا سر حرام ہے، اور اگر قیمتوں کے کنٹرول سے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کا تقاضہ پورا ہو رہا ہو کہ حقیقی قیمت اور واجبی (کم سے کم) معاوضہ لینے پر مجبور کیا جائے یا ایسی تدبیر اپنائی جائے جس کا لینا تاجر کے لئے حرام ہو تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ حکمرانوں کے لئے واجب بھی ہے۔
مجمع الفقہ الاسلامی مکّہ مکرّمہ نے تاجروں کے منافع کے کنٹرول سے متعلق 1309 ہجری میں ایک قرارداد پیش کی جس میں یہ طے پایا کہ حاکم صرف اس وقت مارکیٹ اور چیزوں کے بھاؤ کے سلسلے میں دخل اندازی کرے جب مصنوعی اسباب کی وجہ سے ان چیزوں میں واضح خلل پیدا ہو جائے تو ایسی صورت میں حکمران کو چاہئے کو وہ ممکنہ عادلانہ وسائل اختیار کرتے ہوئے اس مسئلے میں دخل اندازی کرے تا کہ بگاڑ، مہنگائی اور غبن کے اسباب کا خاتمہ کر سکے۔

یہ صد فی صد درست ہے کہ دورِ حاضر میں ہر شخص دنیا کے پیچھے شتر بے مہار کی مانند بھاگ رہا ہے۔ آج کے انسانوں کو آخرت اور اس وقت کے حساب و کتاب، حیات بعد الموت کا چنداں احساس نہیں۔ جس کے نتیجے میں انسان ایک سرکش گھوڑے کی مانند، اپنی طاقت، دولت اور برادری کے گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ تاریخ کے جھروکوں میں قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ۔
”زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے“
مہنگائی کی اصل وجہ کیا ہے۔ چند بنیادی اور اہم وجوہات میں سے ایک اہم وجہ بڑھتی ہوئی فضول خرچی بھی ہے۔ ہم ظاہری نمودو نمائش میں اس قدر گم ہو چکے ہیں کے کب ہم لاکھوں روپے غیر ضروری چیزوں پر صرف کر بیٹھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بعض اوقات تو بس شوق اور لطف کے لئے بہت ساری غیر ضروری چیزوں میں اپنی جیبیں خالی کر لیتے ہیں۔ ”اللہ تعالی ٰ کو فضول خرچ اور بخیل دونوں ہی نا پسند ہیں“
اب اس مہنگائی اورگراں فروشی سے بچنے کے لئے بس ایک ہی اصول ہے اور وہ یہ ہے کے تجارت کے اسلامی اصولوں کی پابندی کی جائے۔ اسلام ہمیں دھوکہ د ہی سے روکتا ہے۔ مگر یہاں آج کا تاجر تو مسلمان ہو کر قربانی کے جانور کے دو نقلی دانت لگا کر بیچ دیتاہے۔ نقص والی چیز کے عیب چھپا کر مہنگے داموں فروخت کرتا ہے۔ اسلام میں عییب کو پوشیدہ رکھ کر بیچنے کی ممانعت ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
”جو کوئی بھی دھوکہ دہی کرے گا وہ ہمارے طریقے سے نہیں“ (صحیح مسلم)
منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک نشانی یہی ہے کہ جبب وہ بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا۔ وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت، منافق کی ہی نشانیوں میں سے ہیں۔
اسلام ذخیرہ اندوزی کی بھی ممانعت کرتا ہے۔ اسلام ہمیں بتلاتا ہے کہ جس سامان کی قیمت میں اضافہ ہو تو اس کا بدل تلاش کریں۔ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ خلیفہ تھے اور اس وقت کشمش کی قیمت بڑھ گئی، لوگوں نے خط لکھ کر حضرت علی سے شکوہ کیا تو انہوں نے یہ رائے تجویز کی کے تم لوگ کشمش کے بدلے کھجور استعمال کرو، کیونکہ جب ایسا کرو گے تو مانگ کی کمی سے کشمش کی قیمت گر جائے گی۔ اور اگر سستی نہ بھی ہو تب بھی کھجور کشمش کا بہتریں نعم البدل ہے۔
اسلام ہمیں درس دیتاہے کہ جس چیز کی قیمت میں اضافہ ہو تو انسان کو اس کا استعمال بند کر دینا چاہییے۔ عمرِ فاروق رضی اللہ کے زمانہء خلافت میں کچھ لوگ گوشت کی قیمت کے اضافہ کی شکا یت کرنے کے لئے خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمرِ فاروق رضی اللہ نے ان کی بات سننے کے بعد فرمایا اگرگوشت کا بھاؤ چڑھ گیا ہے تو تم کم کر دو۔ لوگوں نے کہا، ہم تو ضرورت مند ہیں، گوشت ہمارے پاس کہاں جو ہم اس کی قیمت کم کر دیں، یہ تو تاجروں کا کام ہے۔ عمرِ فاروق رضی اللہ نے فرمایا کہ دراصل تم لوگ گوشت کا استعمال کم کر دو، جب تم اس کا استعمال کم کرو گے تو اس کی قیمت خود کم ہو جائے گی۔
اب یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس مشکل وقت میں حکومت کو بہتر مشورہ دیتے ہیں سدباب ڈھونڈنے میں مدد کرتے ہیں یا دھرنا اور انتشار پھیلا کر اپنے ہی ملک کے لئے مزید آزمائش کا باعث بنتے ہیں۔

غیر ممکن ہے کے حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بڑی سوچ کے الجھائی ہے۔
(از طرف جمیل احمد)

اپنا تبصرہ بھیجیں