مٹی کے برتن

زمانہ قدیم سے لے کر آج کے جدید دور تک برتن انسان کی ہمیشہ سے ضرورت رہے ہیں روئے زمین پر اپنی آمد کے ساتھ ہی انسان نے جن چیزوں کی ضرورت محسوس کی ان میں کھانے پینے اور دیگر استعمال کے برتن بھی شامل تھے مٹی کے برتنوں کی تاریخ بہت پُرانی ہے کیونکہ دھات کے استعمال سے بہت پہلے انسان اپنی ابتدا میں ہی مٹی کو ہاتھ سے مختلف شکلوں میں ڈھالنا سیکھ چکا تھا اور تب سے لیکر آج تک مٹی کے برتن کھانا پکانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں دھات کے بنے برتن کی نسبت مٹی کے برتن میں کھانا سُست روی سے آہستہ آہستہ پکتا ہے جس سے کھانے میں موجود وٹامنز اور غذائیت محفوظ رہتی ہے مٹی کی ہانڈی اور دھات کی ہانڈی میں سرسوں کا ساگ پکا کر دیکھ لیں دونوں کے ڈائقوں میں نمایاں فرق نظر آئے گا اور ہانڈی میں گھی بھی کم مقدار میں خرچ ہوتا ہے اورکھانا بھی ذائقہ دار پکتا ہے غرض یہ کہ آپ کوئی بھی سبزی یا دیگر سبزیاں مٹی کی ہانڈی میں پکائیں تو انکا ذائقہ دھات کے بنے برتن میں پکانے کی نسبت اعلی ہوگا اُس کی وجہ یہ ہے کہ مٹی کے برتن مسام دار ہوتے ہیں جن میں سے گرم آنچ کی ہوا برتن میں داخل ہوتی ہے اور کھانے کو ہلکی آنچ پر گلاتی ہے جس سے کھانے کا ذائقہ دوبالا ہوجاتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ برتنوں کی بناوٹ میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ان برتنوں میں گھڑے کو مرکزی حیثیت حاصل رہی اگر ہم آج سے چالیس سال پیچھے اپنی یاداشت کی کھڑکی کھولیں تو اس دور میں گھرکے اندر یا کسی کونے میں سایہ دار درخت کے نیچے باقاعدہ تھلے بناکر مٹی کے گھڑے رکھے جاتے تھے ان مٹی کے گھڑوں میں پانی یخ ٹھنڈا رہتا تھا مگر اب کنویں غیرآباد ہوگئے ہیں اور ہر گھر میں بور کی کھدائی کے کلچر نے ٹھنڈے پانی کے کنوؤں کا کلچر ختم کردیا ہے تاہم حالیہ دنوں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جب فریج بند پڑجاتے ہیں تو ایک بار بھر ٹھنڈے پانی کی طلب کے لیے مٹی کا گھڑاذہن میں گردش کرنے لگتا ہے بلکہ اب ان حالات میں گھڑے کی اہمیت و ضرورت دوبارہ محسوس ہونے لگی ہے گھڑا کچی مٹی کو گوند کربنایا جاتا ہے مٹی سے برتن بنانے کے فن کو ’کوزہ گری‘کے نام سے پکار جاتا ہے،کوزہ گری فارسی زبان کا لفظ ہے اور کوزہ گر اس شخص کوکہاجاتا ہے جومٹی کے ڈھیلے کو برتن کی شکل میں ڈھالتا ہے مگر وہ عام مٹی نہیں ہوتی بلکہ صرف چکنی مٹی سے ہی برتن بنائے جاتے ہیں جو مٹی کے برتن بناتا ہے ہم اسے کمہار کہتے ہیں ہمارے گاؤں اراضی پنڈ میں بھی ماماجی کے نام سے ایک بزرگ ہوا کرتے تھے جو مٹی کے گھڑے بنایا کرتے تھے انہوں نے اپنے گھر میں ایک بھٹی بھی لگا رکھی تھی وہ بڑی مہارت سے مٹی سے گھڑے تیارکرتے پھر ان گھڑوں کو کچھ دن تک آگ کی بھٹی میں رکھ دیتے اوراس بھٹی میں آگ جلاتے جس سے مٹی کے بنے ہوئے کچے گھڑے کچھ دن بھٹی میں رہنے کے بعد پک کر مضبوط اور قابل استعمال ہوجاتے تھے پھر وہ یہ گھڑے اپنے گدھے پر لاد کرنزدیک کے دیہات میں فروخت کرکے اپنی گھر والوں کیلیے حلال روزی کما کر لاتے تھے اس دور میں زیادہ ترلوگ پیسوں کی بجائے گندم کے اناج سے ان گھڑوں کو خرید لیا کرتے تھے ماماجی سے گھڑا خریدنے کے بعد گاؤں کی عورتیں اپنے سر پر دو دو گھڑے رکھ کر نزدیکی کنویں سے پانی بھر کر لاتی تھیں تاہم ان میں سے بعض عورتوں نے اوپر تلے تین تین گھڑے بھی سر پر رکھے ہوتے تھے اور دیکھنے والے اس عورت کی مہارت کو داد دیتے تھے تاہم موجودہ دورمیں خطہ پوٹھوہار میں مٹی کے گھڑے اور برتن بنانے والے کمہار کاریگر خاندان ناپید ہوچکے ہیں اب سلور سٹیل اور پلاسٹک کے بنے برتن ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک اور ایلمونیم کے برتن استعمال کرنے کی وجہ سے آج نت نئی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں اس دور میں عام طور پرجس گھڑے میں پینے کیلیے پانی ذخیرہ کیاجاتا تھا اسے کورا گھڑا کہتے تھے کیونکہ اسکی رنگت دوسرے گھڑوں کی نسبت سفیدی ماڈل ہوتی تھی مٹی کے بنے ہوئے گھڑے کا پانی دن بھر ٹھنڈا رہتا اورپکا گھڑا ہاہر کی گرمی سے اس کے اندرکے ذخیرہ پانی کو گرم نہیں ہونے دیتا تھا اسکے علاوہ ہمارے پنجاب کی دیہی ثقافت میں شادی بیاہ کے موقعہ پر گھڑا بجا کر گیت گائے جاتے تھے مگر آج کل تو پانی کا گھڑا بہت ہی کم نظر آتا ہے اس کی جگہ ریفریجریٹرز اور پلاسٹک کے بنے ہوئے کولر نے لے لی ہے مگر آج بھی اس گھڑے کا ٹھنڈا اورمیھٹا پانی ریفریجریٹرز اور واٹر کولر کے پانی سے کہیں زیادہ ترو تازہ ہوتا ہے گھڑا یوں تو پہلے وقتوں میں ہر گھر کی ضرورت تھا تاہم ایک لوک داستان کے ذریعے گھڑے کو اس وقت کافی شہرت ملی جب سوہنی مہینوال کی محبت میں گرفتار ہوکر اس کو ملنے کی غرض سے مٹی کے گھڑے کے سہارے دریا پار کیا کرتی تھی تاہم ایک روز موسم کی خرابی کے باعث وہ گھڑے سمیت دریا کی لہروں کی زد میں آکر پانی میں ڈوب گئی جبکہ مہینوال بھی اپنی محبوبہ کی جان بچاتے ہوئے دریا میں کود پڑا اور اور یوں دونوں دریا کی لہروں کی نظر ہوگئے تھے آج کل گھڑا پانی بھرنے کے لیے کم ہی استعمال ہوتا ہے تاہم شادی بیاہ کی رسموں میں گھڑا ساز کے طور پر اسے بجایا جاتا ہے فن کاروں کی انگلیاں جب گھڑے پر پڑتی ہیں تو مٹی کا گھڑا سُر بکھیرنے لگتا ہے خطہ پوٹھوہار میں شادی بیاہ کے موقع پر گھڑولی بھرنے کا رواج آج بھی قائم ہے دولہا بننے سے قبل دولہا کی بہنیں اور دیگر رشتہ دار شیشے کے نقش ونگار سے بنی مٹی کی گھڑولی لیکر گاؤں کے سات کنوؤں پر جاکر ہر کنویں سے تھوڑا تھوڑا پانی اس گھڑے میں ڈال کر لاتی ہیں اور باری باری سر پر رکھ کر دولہے کی سلامتی کے گیت گاتی ہیں اس رسم کی ادائیگی کے بعد ہی دولہا بارات کی روانگی کیلیے اپنا بناؤ سنگھار کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں