مٹور میں شعری مجموعے کی تقریب رونمائی

کہوٹہ کے مضافات میں موجود عسکری و سیاسی حوالے سے جانے جانے والے مٹور کی تاریخ میں پہلی بار کسی شعری مجموعے کی تقریبِ رونمائی اور مشاعرہ ہوامٹور کی دھرتی میں حسن فرذوق پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ان سنگلاخ چٹانوں میں سخن کا گلاب کھلایاحسن فرذوق کے پہلے شعری مجموعے ”رقصم” کو اولیت کا اعزاز حاصل ہے تقریب کی صدارت عہدِ حاضر کے نامور ناقد اور شاعر جناب اختر عثمان نے کی مشہورِ زمانہ نغمہ ”دنیا کے منصفو” کے خالق جناب جاوید احمد سرپرستِ اعلیٰ کی حیثیت سے شامل رہے پہلا حصہ کتاب کی تقریبِ رونمائی کا تھا جس میں نوجوان شاعر عدنان نصیر، نوید فدا ستی، عبداللہ کمال، جاوید احمد اور صاحبِ صدارت جناب اختر عثمان نے کتاب پر اپنے تنقیدی مضامین پیش کئے مقررین نے کتاب کی اشاعت پر صاحبِ کتاب کو مبارک باد پیش کی اور ان کی اس کاوش کو خوب سراہاتقریبِ رونمائی کے اختتام پہ صاحبِ کتاب کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئی تقریب کا دوسرا حصہ مشاعرہ تھاجس میں آزاد کشمیر اور پاکستان سے نام ور شعرا نے شرکت کی مشاعرے کی صدارت جاوید احمد نے کی مہمانانِ خصوصی میں ملک کے مشہور طنزیہ و مزاحیہ شاعر ڈاکٹر عزیز فیصل، کرنل(ر) شہاب عالم قریشی، ڈاکٹر ماجد محمود ماجد اور عمران عامی تھے جبکہ مہمانانِ اعزاز میں صداقت طاہر، عاصم سلیم بٹ، شعیب کیانی اور فقیہہ حیدر شامل تھے مقامی شعرا میں قمر عباس، حسن ظہیر راجا، عبدالرحمن واصف، نوید فدا ستی، عبداللہ کمال، عدنان نصیر، حسیب علی، عاصم افتخار، محسن ظفر ستی، وقاص امیر اور مطیع احمد مجتبی شامل تھے نظامت کے فرائض جناب حسن ظہیر راجا نے ادا کئے اہلِ علاقہ کثیر تعداد میں مشاعرہ گاہ میں موجود رہے کوئی بھی مصرع گرنے نہیں دیا گیا واہ واہ،سبحان اللہ اور مکرر کی صدائیں آخر تک گونجتی رہیں آخر میں شعرا اور سامعین کو شان دار کھانا پیش کیا گیابلاشبہ یہ مٹور کی دھرتی پر ایک عظیم الشان مشاعرہ تھا جو سالوں خطے کے حافظے میں رہے گا۔
مشاعرے میں پیش کردہ کچھ منتخب اشعار
کربلا والیو! بس چادرِ اطہر کا خیال
سرِ خیمہ کبھی عبّاس نہیں بھی ہوتا
(اختر عثمان)
بے مثل اڑانوں کے طلسمات ہیں کیا کیا
اس طائرِ مغرب کے پر و بال میں کیا ہے؟
(جاوید احمد)
مجمعِ مے کشاں لگا ہوا ہے
مست ہے جو جہاں لگا ہوا ہے

(عمران عامی)
کیسے کَہ دوں کہ تجھے ووٹ دیا ہے میں نے
”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی”
(ڈاکٹر عزیز فیصل)
ہمیں اک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے ہمیشہ
ہمیں اک دوسرے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے
(ڈاکٹر ماجد محمود ماجد)
ترے اس جہان سے بچ نکلنے کی جانچ ایسی کڑی ہوئی
ہمیں دل ملا تو لگا ہوا،ملی آنکھ جو تو لڑی ہوئی
(صداقت طاہر)
خود کُشی کا خیال آیا تھا
پیار کر کے بچا لیا خود کو
(قمر عباس)
ساتھ لے کر اسے نکلوں تو یہ ڈر لگ جائے
اپنی جوڑی کو نہ دنیا کی نظر لگ جائے
(حسن ظہیر راجا)
پرندوں کی حفاظت کی ہے ہم نے
شجر سے پوچھ لو شجرے ہمارے
(حسن فرذوق)
کافری بھیک میں نہیں ملتی
خود پہ ایمان لانا پڑتا ہے
(عدنان نصیر)
آج پھر اس کے روٹھنے کا سبب
حسبِ معمول کوئی بات نہیں

(حسیب علی)

اپنا تبصرہ بھیجیں