مولوی عبدالجبار،مسکراتی آنکھوں والا شخص

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص پورے شہر کو ویران کر گیا
جڑول خُرد میرپور کے مولوی عبد الجبار بھی انہی مسافروں میں سے ایک تھے، جن کے جانے سے صرف ایک خاندان ہی نہیں، بلکہ پورا علاقہ یتیم ہو جاتا ہے۔ 14 جون کی دن جب ان کی موت کی خبر پھیلی، تو ہر زبان پر بے یقینی کے سائے تھے۔ کچھ ہفتے قبل انہیں دل کا عارضہ لاحق ہوا تھا۔ علاج ہوا، افاقہ بھی ہوا، مگر ڈاکٹروں کے اصرار پر اوپن ہارٹ سرجری کروانی پڑی۔ افسوس کہ سرجری کامیاب نہ ہو سکی۔ یہ الگ بحث ہے کہ سرجری کیوں کامیاب نہ ہوئی، مگر یہاں مقصد صرف یہ ہے کہ ان کی زندگی اور کردار کا ذکر ہو، جس نے ان کے نام کو‘مولوی جبار’بنا دیا۔


مرحوم ایک باعمل انسان تھے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی، تہجد گزار، نرم گفتار، مسکراتا چہرہ – یہ سب ان کی شخصیت کے تعارف تھے۔ کبھی ماتھے پر بل نہ دیکھا۔ جس سے بھی ملے، مسکرا کر، محبت سے بات کی۔ راقم کو اکثر جب مشکلات آتی تھیں تو میں ان کے پاس چلا جاتا اور درخواست کرتا کہ تہجد میں دعا کیجیے گا۔ وہ سنتے تو خوش ہو جاتے اور وعدہ کرتے کہ دعا ضرور کریں گے۔ آج جب وہ اس دنیا میں نہیں، تو ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے دل کی دیوار کا سہارا کھینچ لیا ہو۔


مولوی عبد الجبار مسجد کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے۔ آپریشن سے پہلے اپنے تمام مالی معاملات صاف کر چکے تھے۔ یہی ان کی سوچ کی وسعت تھی کہ کسی پر بوجھ نہ رہے۔ غربت کے دنوں میں بھی محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کو بہترین تعلیم و تربیت دی۔ آج ان کے دو بیٹے روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں۔ وہ اپنے پیچھے ایک بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑ گئے ہیں۔اہل علاقہ کی آنکھیں آج بھی اشکبار ہیں۔ ان کے ذکر کے بغیر جڑول خُرد کی کوئی محفل مکمل نہیں ہو سکتی۔ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ“موت برحق ہے”، مگر سچ تو یہ ہے کہ کچھ لوگ مرتے نہیں، بس جسمانی پردہ کر لیتے ہیں، ان کی یادیں، ان کی باتیں، ان کی مسکراہٹیں – یہ سب دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
مشہور اداکار عرفان خان نے موت سے پہلے کہا تھا:
”جب ہم جیسوں کی باری آتی ہے تو سالی موت بیچ میں ٹپک آتی ہے“۔
مولوی عبد الجبار بھی زندگی کی کئی کہانیاں، کئی دعائیں، کئی باتیں ادھوری چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں