مولانا اصغر مغموم‘نامور شاعر

خطہ پوٹھوہار نے اپنے دامن میں بڑے بڑے عظیم شعراء کو جنم دیا ایسے شعراء کے جن کا کلام خاص و عام کو اپنی جانب کھینچتا نظر آتا ہے ان میں بعض تو تعلیم یافتہ تھے مگر بعض (بلکہ اکثر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا) نے کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود خداداد صلاحیات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ انہی شعراء میں ایک نام مولانا اصغر مغموم صاحب کا بھی ہے آپ 1938ء میں تحصیل کہوٹہ کے معروف گاؤں مواڑہ، کی ڈھوک پیر پنیاہ، میں محمد افسر صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔

ابتدائی دینی و دنیوی تعلیم آٹھویں جماعت تک مواڑہ سے حاصل کی۔اسی زمانہ میں آپ نے شعر کہنے کا آغاز فرمایا۔ گھر کے حالات و دیگر معمولات زندگی کے اتار چڑھاؤ کے پیش نظر مزید تعلیمی سفر کو جاری نہ رکھ سکے اس دور کے مطابق 12 یا 13 سال کی عمر میں معیاری شاعری کرنا اچھنبے کی بات ہے اور حیرت کی بات یہ کہ آپ کا باقاعدہ کوئی استاد بھی نہیں ۔یعنی وہ خداداد صلاحیات تھیں جو غورو فکر اور سوچ و بیچار کے بعد الفاظ کا روپ دھار کر دسترخوان علم پر جلوہ افروز ہوئیں۔ آپکا شمار خطہ پوٹھوہار کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے۔

آپ نے حمد‘ نعت‘ منقبت‘ کربلا، مجاز اور دیگر بہت سے موضوعات پر ہزاروں اشعار تحریر فرمائے، مگر صد افسوس کہ آپ کا 90 فیصد کلام سفید پوش چوروں کی نظر ہو گیا۔ یعنی آپکی محفل میں بیٹھنے والے آپ کے قریبی دوست یوں کلام لے کر رخصت ہوئے کہ واپس کلام لے جانے والے تو نظر آئے مگر کلام نظر نہ آیا اور یہ بددیانتی کا عظیم مظاہرہ ہے۔آپ نے ساری زندگی زکر اہل بیت میں بسر کی اور آج بھی آپکی محفل اس پاکیزہ زکر سے خالی نہیں جاتی۔میں بارہا آپکی خدمت میں حاضر ہوا (اب بھی ہوتا ہوں) اور اپنا کلام پیش کرکے اصلاح کا سامان کیا آپ اکثر فرمایا کرتے ہیں ”کہ شاعری تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے اور شاعر کو چاہیے کہ عام فہم شاعری کرے تاکہ ہر انسان اس کو سمجھ کر اپنی اصلاح کر سکے“۔

آپ نے اپنی شاعری کا کچھ حصہ (جو بچ گیا) یعنی مختلف موضوعات پر مشتمل چند اشعار جو خستہ حال کاغذات پر رقم تھے میرے سپرد کیے اور فرمایا کہ”جب بھی موقع ملے خوب چھان بین، کے بعد انکو شائع کر دینا شاید یہ اشعار کسی کی اصلاح ذریعہ بن جائیں“۔کچھ عرصہ قبل آپ کی شاعری کا سراغ لگاتے ہوئے معلوم ہوا کہ آپ کے کلام کا ایک بڑا حصہ فلاں صاحب کے پاس ہے جب ان سے صاحب رابطہ کیا گیا اور اس بات کا مولانا سے ذکر کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ آپ کے قریبی دوست ہیں اور خود آپ نے یہ کلام ان کے حوالے کیا تھا۔بہرحال انہوں نے کہا کہ جب بھی آپ کو کلام چاہیے ہو میں آپ کے حوالے کر دوں گا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے اور آپ اسی طرح حکمت کے موتی بکھیرتے رہیں، جن کو چن کر اہل قدر اپنی اور دوسروں کی اصلاح کا سامان کرتے رہیں (آمین)
منکرو! آ تشیو! جلو بے شک
دم دم وچ علی دم علی ہوسی
منکر مل کے زور ہاں لاؤ تے سہی
علی علی ہر کوچے ہر گلی ہوسی
ساڈا ادھر بھی علی ولی مولا
ادھر محشر میں بھی علی ولی ہوسی
روز محشر مغموم سب منکراں نے
منہ کالیاں کالک منہ ملی ہوسی
(حماد علی حافی، متعلم جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی)

اپنا تبصرہ بھیجیں