موضع جھرکی میں نئی جیل بنانے کا منصوبہ/ مسعود جیلانی

چونترہ وچک بیلی خان کا علاقہ راولپنڈی کا انتہائی پسماندہ علاقہ کہلاتا ہے اس علاقہ کے لوگوں کو غیور کی تھپکی دے کر قتل و غارت گری کی طرف مائل رکھنے کا عمل عرصہ قدیم سے جاری ہے قدیم دور میں بھی جن لوگوں کے دلوں میں اپنی اولاد کو تعلیم یافتہ

بنانے کی تمنا تھی انہوں نے اپنے اس علاقے کو چھوڑو کر شہروں یا بیرون ملک کا رخ کیا اور وہاں جا کر اپنی اولادوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا اور انہی میں سے کئی لوگ بڑے آدمیوں کے روپ میں سامنے آئے موضع میال تعلق رکھنے والے پروفیسر ظہور نواز اعوان مرحوم کنٹرولر امتحانات انٹرمیڈیٹ و ثانوی تعلیمی بورڈ راولپنڈی رہ چکے ہیں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات کی اسناد انہی کے دستخطوں سے جاری ہوئیں ان کے اس مقام تک پہنچنے تک کا پسِ منظر اگر دیکھا جائے تو ان کے والدِ محترم ملک محمد نواز مرحوم قتل و غارت گر ی میں پڑے ہوئے اس علاقے کو چھوڑ کے راولپنڈی چلے گئے تھے جہاں انہوں اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا آج کے دور میں جناب چوہدری نثار علی خان صاحب نے اپنی معاونت کے لئے اسی گاؤں میال سے ایک شخص کو ساتھ رکھا ہوا ہے

اس کے باوجود وہاں کوئی نیا ظہور نواز اعوان پیدا ہونے کی بجائے پیدا ہونے والا ہر تیسرا بچہ جرائم کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے اسی طرح جناب چوہدری نثارعلی خان صاحب نے خود بھی اپنی تعلیم آبائی علاقے چکری میں نہیں حاصل کی ان کے مدِ مقابل پی ٹی آئی امیدوار کرنل(ر) اجمل صابر راجہ نے بھی اپنے گاؤں تترال کی بجائے شہر میں اور بیرون ملک تعلیم حاصل کی پیپلز پاڑٹی کے چوہدری زمرد خان کی تعلیم حاصل کرنے کی تاریخ بھی اسی طرح ہے یہ سب بڑے مقام کے لوگوں کو اپنے علاقے میں اعلیٰ تعلیم کا کوئی ذریعہ دستیاب نہیں تھا1997ء میں جب میرے والد محترم چوہدری غلام جیلانی ایک موجودہ بڑی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے تو الیکشن مہم کے دوران چک بیلی خان میں گرلز کالج کے قیام کئے جگہ عطیہ کرنے والے ایک مخیر چوہدری نثار احمد آف چک بیلی خان بھی بطورسپورٹرمیرے ہمراہ تھے ایک گھر میں انہوں نے لوگوں سے گفتگو کے دوران یہ کہا کہ ہم نے بیٹیوں کے تعلیم کے شوق کو دیکھتے ہوئے گرلز کالج کے لئے جگہ عطیہ کی تاکہ ان کے بڑے ہونے تک یہاں کالج بن جائے گا

اور ہمیں شہروں کے دھکے نہ کھانا پڑیں اب ہماری وہ بیٹیاں جوان ہو کر شاد ی شدہ ہو کر بچوں کی مائیں بن چکی ہیں لیکن ہماری عطیہ کی ہوئی اس زمین پر کالج نہیں بن سکااب نثار احمد خان صاحب اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے(آمین) ان کی عطیہ کی ہوئی جگہ پر کالج تو نہیں بناالبتہ ایک ہائر سیکنڈری سکول بنادیا گیا ہے جہاں صرف نام کا سٹاف موجود ہے باقی نو عمر فارالتحصیل لڑکیوں بطور ٹیوٹر رکھ کر کام چلایا جا رہا ہے گرلز ڈگر کالج کا حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے جگہ بھی حکومتِ پنجاب کے نام کر دی گئی اس کی تعمیر کی رفتار سے لگتا ہے کہ یہ کام بھی اس وقت مکمل ہو گا

جب آج کے دور کی میٹر ک کی طالبات بھی بوڑھی ہو کر دنیا سے رخصت ہوجائیں گی یہی حال صحت کے شعبے میں ہے ہسپتال کی جب بھی بات کی جائے تو مختلف بہانوں سے یہ بات ٹال دی جاتی ہے اگر دیکھا جائے تو وادیٗ سواں کے اس علاقے میں چک بیلی خان تا روالپنڈی روڈ، چک بیلی خان تا چکوال روڈ ، چونترہ اڈیالہ روڈ ، اور چکری راولپنڈی روڈ کسی پر بھی کوئی بڑا ہسپتال موجود نہیں ہے البتہ چونترہ کے ان غیور لوگوں کے لئے جیل جانے اور ان کے اہل خانہ کی ملاقاتوں کی سہولت کے لئے چونترہ اڈیالہ روڈ پرااڈیالہ جیل بنا دی گئی جہاں اب بھی چونترہ کے غیور قیدی کافی تعداد میں مختلف جرائم میں قید ہیں اب ایک اخباری خبر کے مطابق ان غیور کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر موضع جھرکی میں ایک اور جیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لئے جگہ کی نشاندہی بھی کر دی گئی اور سیکشن فور کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے موضع جھرکی چک بیلی خان تاروات روڈ اور چونترہ اڈیالہ روڈ کے درمیان واقعہ تھانہ روات کے لوگ بھی موجودہ ایک عرصہ سے معاشی ،سیاسی و سماجی لحاظ چونترہ کے لوگوں کے ساتھ منسلک ہیں انہیں بھی ہرکہ کے مقام پر اکنامک زون کے چکمے تو کافی عرصے سے دئیے جا رہے ہیں

وہاں بھی اکنامک زون تو نہ بن سکا البتہ بد بو سے بھرپور کچرا منڈی ضرور بنا دی گئی جہاں انہیں بدبو میں کھانا ،پینااور سونا پڑتا ہے اگر وہ کوئی احتجاج کریں تو ان پر لاٹھیاں ہانکی جاتی ہیں اب نئی بننے والی اس جیل سے صرف چونترہ ہی نہیں بلکہ روات کے غیرت مند لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں گے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ اگر ان لوگو ں نے غیرت کی پرانی پگڑی اپنے سر پر سجائی رکھی تو اڈیالہ و جھرکی تو کیا انہیں گھر گھر جیل کی سہولت ملے گی۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں