موسمیاتی تبدیلیاں اور مستقبل کا لائحہ عمل

پاکستان دنیا کے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں دو بڑے موسمی نظاموں کے اثرات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی جیسے مارچ میں گرمی کی لہر کا سبب بن سکتا ہے اور دوسرا مون سون کی بارشیں لے کر آتا ہے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں بہت نقصان ہوا ہے اور پاکستان خیرات نہیں بلکہ موسمیاتی انصاف چاہتا ہے کوپ 27-کے لاس اینڈ ڈ یمیج فنڈ پر عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے پاکستان میں سیلاب کے باعث 33ملین لوگ متاثر ہوئے سیلاب سے زراعت صفت غلہ بانی کا تیس ملین ڈالر کا نقصان ہوا بلاشبہ دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے پیدا کردہ موسمی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان نے عالمی مالیاتی کانفرنس کوپ 27میں غریب اور ترقی پذیر ممالک کا کیس بھر پور طریقے سے پیش کیا جس کے نتیجے میں ایک عالمی فنڈ کا قیام عمل میں آنا خوش آئند امر ہے ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں موسمیاتی بحران زیادہ سنگین اور زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے جس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک کو بھگتا پڑ رہا ہے پاکستان میں جو صورتحال ہے وہ بہت سارے لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان نے نومبر 2021ء میں گلاسکو میں منعقد ہونے والی کوپ 26میں شرکت کی اور مزید 100ممالک کے ساتھ گلوبل میتھین کے عالمی عہد پر دستخط کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کیاہے اس عہد کا مقصد اگلی دو دہائیوں میں دنیا کے میتھین کے اخراج کو تقریباََتیس فیصد تک محدود کرنا ہے پاکستان میں رونما ہونے والے موسمی واقعات کو دیکھتے ہوئے اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرہ واقعتا وجود میں آچکا ہے اور بروقت تدارک ممکن نہ ہو سکا تو پاکستان ما حولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہونے والے پچاس سر فہرست ممالک میں شامل ہونے کا خد شہ ہے ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت ہی کم یعنی صرف ایک فیصد ہے اسی لحاظ سے انصاف کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی زیادہ سے زیادہ امداد اور معاونت کی جائے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کے لئے پائیدار بنیادی ڈھانچہ قائم کر سکے پاکستان عالمی سطح پر دس غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے اس مسئلے کا حل اجتماعی عالمی کوششوں سے ہی ممکن ہے وہ بڑی صنعتی طاقتیں، جنہیں اپنی پیداوار ی سرگرمیاں اور معاشی نموعزیز ہے ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باب میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی فی الوقت نظر نہیں آرہی ہیں سب کو صاف ستھرا اور محفوظ ماحول کی ضرورت ہے مگرکوئی بھی اس کے لئے قربانی دینے کو تیار نہیں جس کے نتیجے میں ہمارے جیسے ممالک اس کی تباہی کے متاثرین میں سرفہرست ہیں اور ماحول سے ان کی دلچسپی صرف اتنی ہے کہ اس موضوع پر سالانہ کانفرنسیں منعقد کروائی جائیں یا تھنک ٹیکس کو فنڈ دے کر اس خطرے کے مطالعات پر مبنی رپورٹس تیار کروائی جائیں انتہائی نوعیت کے موسمی حادثات مختصر االمدتی اعلادی سرگرمیوں اور ریاستی وسائل پر طویل مدت کے لئے بوجھ کا نام ہیں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب غربت اور بے روز گاری کی شرح بلند ہوتی ہے زیادہ بڑے پیمانے پر لوگ اپنی کفالت کرنے والے افراد سے محروم ہو جاتے ہیں یا موسمی حالات کی وجہ سے پناہ گزین بن جاتے ہیں صاف پانی اور غذا تک لوگوں کی رسائی کم ہو جاتی ہے اور معیار زندگی گر جاتا ہے اور مختلف قسم کی بیماریوں کی شرح بڑھ جاتی ہے ملک میں شدید نوعیت کی موسمی آفات سے
مختلف شعبہ جات پر پڑنے والے منفی اثرات کے باعث پاکستان کی جامع قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے اب یہ محض معاشی سلامتی بمقابلہ روایتی سلامتی کا معاملہ نہیں رہا ہے قومی سلامتی ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ قومی طاقت تمام عناصر اور وسائل پر مبنی ہوتی ہے جو ریاست کو اپنے مفادات کے حصول کے قابل بناتے ہیں لہٰذا یہ تمام عناصر وسائل اور شعبہ جات اس کی سلامتی میں حصے دار ہیں گویا کشیدالشعبہ جاتی خطروں کی اس بساط سے نمٹنے کے لئے قومی سلامتی کو جامع نگاہ سے دیکھا جانا ضروری ہے کہ تمام شعبہ جات پر یکساں توجہ مرکوز ہو جبکہ موسمیاتی سلامتی کو اس کو شدت اور فوری نوعیت کی وجہ سے ترجیح دینی ضروری ہے این ایس پی نے اس معاملے پر باضابطہ طور پر گفت وشنید شروع کی لیکن قومی سلامتی کو خطرات کی سنگینی کے سبب موسمیاتی شعبہ پر اس کی توجہ ناکافی رہی اس کی بنیادی وجہ پالیسی سازوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات پر محدود توجہ ہے جیسا کہ وہ دیگر شعبہ جات کو ان تبدیلیوں سے لاحق خطرات کاتخمینہ لگائے بغیر صرف غذا پانی اور توانائی کے شعبے پر اس کے اثرات پر توجہ دیتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو ریاست کی بقا کو لاحق خطرے کے طورپر نہیں دیکھا جاتا ہے گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے یا سیاسی رشہ کشی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے بلکہ ملکوں کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے سائنس نے واضح کر دیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ کو 1.5ڈگری کی سطح پر رکھنے کے لئے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 2030تک تقریباََ پچاس فیصد کی کمی کرنا ہو گی لیکن اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی جانے والی کوششیں انتہائی ناکافی ہیں اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اس رجحان کو نہ بدلا تو ہمیں درجہ حرارت میں تباہ کن حد تک اضافہ کا سامنا کرنا پڑے گا موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکژ کرنا پڑے گا وہ سیلاب جو کبھی دس سال میں ایک مرتبہ آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا دوسری طرف آبادی میں بے دریغ اضافہ ہو رہا ہے نیتجتاََ پانی جیسی بنیادی ضرورت تیزی سے کم ہو رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں پانی پر جنگیں لڑیں گے اس کے علاوہ جو ہری توانائی کے استعمال میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے توانائی کی افادیت اپنی جگہ لیکن اس سے خارج ہونے والی ریڈ یائی لہریں ہمارے ماحول کو زہر آلود کر رہی ہیں بڑے شہر بھی روز بروز پھیل رہے ہیں صنعتی انقلاب کے بعد عوام کی شہرو ں کی جانب نقل مکانی میں تیزی سے اضافی ہوا اور اب ہیوی ٹریفک، گاڑیوں اور کارخانوں سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحولیاتی اور صحت کے مسائل پیدا کر رہی ہے ماحولیاتی تبدیلی ازل سے ہے اور ابدتک بھاری رہے گی لیکن ہم بطور انسان اپنی سرگرمیوں سے اس کی رفتار اور منفی اثرات پر کسی حد تک قابو پا سکتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں ہنگامی بنیادوں پرکام کرنا ہوگا اور ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ موحولیاتی تبدیلی ہر ایک کا مسئلہ ہے اور اسے صرف کوئی ادارہ، حکومت یا سائنسدان نہیں بلکہ ہم سب مل کر حل کریں گے اسی سلسلے میں پاکستان کی سربراہی میں سوئیئرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہونے والی ڈونرز کانفرنس میں پاکستان کو عالمی اداروں اور ممالک نے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد کی بحالی کے لئے دس ارب ڈالر سے زائد امداد دینے کا وعدہ کیا ہے اب اس بات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ یہ وعدہ پورا کب ہو گا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں