مودی کی جیت‘پاکستان کو چوکس رہنا ہوگا‘ ضیاء الرحمن کا تجزیہ

بھارت کے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بہت زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہے۔ بی جے پی کی اس کامیابی نے نہ صرف مخالفین کو بلکہ خود مودی اور اس کے حامیوں کو بھی حیران کر دیا۔ بھارت کے 542نشستوں کے ایوان میں 351نشستیں حاصل کر کے بی جے پی اور اس کے اتحاد نے تاریخ رقم کر دی ہے۔ بی جے پی کی اپنی نشستیں 301ہیں باقی نشستیں ان کی اتحادی جماعتوں شیو سینا اور جے ڈی یو کی حاصل کردہ ہیں جبکہ بی جے پی کو حکومت بنانے کے لیے 272نشستیں درکار ہیں۔ یعنی بی جے پی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ مودی کی کامیابی نے ہندوؤں کی ذہنیت کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ مودی ایک انتہا پسند ہندو رہنما ہے جو مسلمانوں کے خلاف اقدامات کے لیے مشہور ہے۔ 1992میں بابری مسجد کی شہادت نے مودی کو انتہا پسند ہندوؤں کی نظر میں ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ پھر 2002میں مودی کی زیر سرپرستی گجرات میں سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔یہ مظالم اتنے بھیانک تھے کہ مودی پر امریکہ نے بھی اپنے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی جو 2014میں مودی کے وزیر اعظم بننے پر اٹھا دی گئی۔ 2014کے انتخابات میں مودی کی جماعت نے 2019کی بنسبت کم نشستیں حاصل کی تھیں۔ حکومت سازی کے بعد مودی نے انتخابی مہم کے دوران کیا گیا کوئی وعدہ بھی پورا نہ کیا۔ اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو کافی نقصان پہنچایا۔ مودی کے دور حکومت میں بیروزگاری کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے وعدے مثلاً دریائے گنگا کی صفائی اور سپیڈو ٹرین وغیرہ کا آغاز بھی ابھی تک ایفا کے منتظر ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ نہایت ناروا سلوک کرنے میں مودی حکومت اپنا ثانی نہیں رکھتی بلکہ ان کے دور حکومت میں نچلی ذات کے ہندو بھی غیر محفوظ رہے۔ اس کے باوجود مودی نے پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ 2019کے انتخابات سے قبل بی جے پی کی پوزیشن زیادہ مستحکم نہ تھی۔ چند ریاستوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی اس جماعت کو مایوس کیا مگر مودی نے ہندوؤں کی نفسیاتی بیماری تعصب اور انتہا پسندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابی مہم میں پاکستان اور اسلام مخالف بیان بازی شروع کی۔ جس سے اسے کافی فائدہ ہوا۔ پھر سونے پہ سہاگا کہ کشمیر میں پلوامہ کا واقعہ پیش آیا جس میں خود کش حملہ آور نے بھارتی فوجیوں کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چالیس سے زائد فوجی مارے گئے۔ مودی نے اس واقعہ کو ایسا اٹھایا کہ اس کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ جنگی ماحول پیدا کر دیا۔ بھارت نے ہمیشہ کی طرح بلا سوچے سمجھے اس واقعہ کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ڈال دی۔ پھر ایک تنظیم کی طرف سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کی خبر بھی گردش کرنے لگی۔ بد قسمتی سے اس تنظیم کا تعلق پاکستان سے تھا اگر چہ اس تنظیم کی طرف سے بعد میں اس کی تردید بھی سامنے آگئی مگر بھارتی میڈیا عوام کو فقط منفی پہلو دکھاتا ہے۔ اس لیے تردید کی خبریں عوام کے سامنے نہ لائی گئیں لہٰذا مودی نے ہندوؤں کو پاکستان کے خلاف خوب ورغلایا۔ اس نے اپنے جھوٹے میڈیا کا سہارا لیا اور پاکستان کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا۔پھر اس نے یہیں بس نہیں کی بلکہ پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں حملہ بھی کرایا۔ حملہ کیا تھا بس حملہ کا ڈراما یا جنگ کی ریہرسل کہا جا سکتا ہے۔ ان کے جہاز تو صرف یہ دیکھنے آئے تھے کہ کیا ہم پاکستان کی سرحد عبور کر سکتے ہیں کسی حملے کا ارادہ نہ تھا مگر جب پاکستان کی طرف سے رد عمل سامنے آیا تو ایسے حواس باختہ ہو کر بھاگے کہ جاتے ہوئے اپنا اسلحہ ویران پہاڑوں پھر پھینک گئے۔ بھارتی میڈیا نے اس کی بھی جھوٹی کہانی بنا کر عوام کو
سنا دی۔ دوسرے دن پاکستان نے ان کے دو جہاز مار گرائے اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا مگر ہوا پھر وہی کہ مودی سرکار اور ان کے میڈیا نے پاکستان کا ایف16مار گرانے کی جھوٹی خبر پھیلا دی۔ پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت ان کا پائلٹ واپس کیا مگر مودی نے اسے بھی اپنا کارنامہ اور اپنی دھمکیوں کا نتیجہ قرار دیا۔ یوں ہندوؤں کو یقین ہونے لگا کہ مودی واقعی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف اقدامات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے مودی کی پوزیشن کافی مستحکم ہو گئی اور وہ انتخابات میں کامیاب ہو گیا۔ یعنی مودی کی کامیابی خالص تعصب اور انتہا پسندی کی وجہ سے ہوئی۔
یہ تو مودی اور اس کے ساتھیوں نے تجربہ کیا تھا جس میں وہ کامیاب رہے۔ اب تجربے کے بعد کیا ہوتا ہے انسان عملی اقدامات کر تا ہے۔ مودی کے مد مقابل جو جماعتیں کانگریس وغیرہ انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں انہوں نے معاشی اصلاحات وغیرہ کا نعرہ لگایا مگر انہیں کامیابی نہ ملی۔ ان کے مقابلے میں انتہا پسند رہنما جو تعصب کو فروغ دے رہا ہے بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا۔مودی کے دور حکومت میں اقلیتوں کے ساتھ پہلے ہی ناروا سلوک ہوتا رہا۔ کبھی گائے کے نام پر مسلمانوں پر تشدد کیا جاتا رہا اور کبھی”ہندوستان ہندوؤں کا“ کے نعرے پر اقلیتوں کو ستایا جاتا رہا۔ اب تو مودی اور اس کے چیلوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اقلیتوں کے کو مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ مودی کی کامیابی کشمیر کے لیے بھی مضر ثابت ہو گی۔ مودی تو پہلے ہی آرٹیکل 35Aکو ختم کر کے کشمیر میں ہندوؤں کو بسانے پر بضد ہے تاکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ اس کے علاوہ مودی جیسے انتہا پسند رہنماکے ہوتے ہوئے پڑوسی ممالک بھی غیر محفوظ رہیں گے اور خطے کا امن بھی داؤ پر لگا رہے گا۔ مودی نے ملک میں غربت و افلاس کے خاتمے کی بجائے اسلحہ جمع کر کے ہمسایہ ممالک کو ستانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے جس سے تمام ہمسایہ ممالک تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ بالخصوص پاکستان کے خلاف تو مودی نے ہر وقت محاذ کھول رکھا ہے۔ اس لیے پاکستان کے لیے اگلے پانچ سال کسی چیلنج سے کم نہیں ہوں گے۔ البتہ افغانستان سے امریکی خلاء کے بعد بھارت افغانستان میں امریکہ کے سایہ شفقت سے محروم ہو جائے گا۔جس کی وجہ سے افغانستان میں بھارتی غنڈہ گردی کچھ کم ہو جائے گی۔بہر حال پاکستان کا دفاعی نظام الحمد للہ بہت بہتر ہے جسے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو ہر دم بھارت کی ہر قسم کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنی ہو گی۔مودی پاکستان پر حملہ کرنے کی تو جرأت نہیں کر سکتا لیکن چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے ذریعے پاکستان کو پریشان کر کے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ لہٰذا اگلے پانچ سال پاکستان کو بھارت کی طرف سے ہر دم چوکس رہنا ہوگا۔

ضیاء الرحمن ضیاءؔ
zia.ur.rehman202@gmail.com

اپنا تبصرہ بھیجیں