کالم

موت،اِذن ربی اور وقت معین

الحمد للہ رب العالمین! شکر ہے اس ذات کا جو تمام جہانوں اور نظامِ ہستی کو اپنی قدرت کے جلووں سے سنوار کر چلا رہا ہے، جو قلم کو مسلسل الفاظ کی روشنی سے منور کرتا ہے، اور جس نے کائنات کی ہر شے کو انسان کے لیے مسخر کر رکھا ہے۔”ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔“القران (آلِ عمران: 185)یعنی موت اللہ کے حکم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان میں ہر شے کی طرح زندگی اور موت بھی اللہ کے حکم کی تابع ہیں۔ کوئی طاقت، کوئی تدبیر، کوئی کوشش اس فیصلے کو ٹال نہیں سکتی۔ جب اذنِ ربی آ جاتا ہے تو نہ کوئی لمحہ آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ پیچھے۔زندگی دراصل ایک موجِ رواں ہے جو وقت کے دریا میں بہتی ہوئی اپنے آخری کنارے یعنی موت کے ساحل سے جا ملتی ہے۔ زندگی آغاز کا جلوہ ہے تو موت تکمیل کی سچائی۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
سلسلہ روز و شب نقش گرِ حادثات
سلسلہ روز و شب اصلِ حیات و ممات
اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا


اذنِ ربی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ایک مقررہ لمحے پر انسان کی سانس ٹوٹ جاتی ہے، بلکہ یہ اس پورے فطری نظام کی طرف اشارہ ہے جو زندگی اور موت کو کنٹرول کرتا ہے۔ ”اذن” قرآن میں ”کن فیکون” کے ساتھ بھی آتا ہے۔ جب اللہ فرماتا ہے ”ہو جا” تو کائنات میں مطلوبہ نظام یا جہان کی تخلیق شروع ہو جاتی ہے۔ گویا اذنِ ربی قوانینِ الٰہی کی تخلیق اور ان کی فطرت میں مسلسل عملداری ہے۔”اور ہر ایک کے لیے ایک وقت مقرر ہے، پھر جب وہ آتا ہے تو نہ ایک گھڑی آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ پیچھے۔“(یونس)
قرآن واضح کرتا ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور اس میں نہ تعجیل ممکن ہے نہ تاخیر۔اکثر ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر موت کا وقت طے شدہ ہے تو قاتل کو سزا کیوں دی جاتی ہے؟ کیا وہ محض ایک وسیلہ نہیں تھا؟ اسی طرح یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ کیا موت کسی خاص تاریخ اور لمحے کے ساتھ متعین ہے یا اس میں کوئی درجے کی لچک موجود ہے؟آئمہ کرام اور علماء عظام قرآن و حدیث کی روشنی میں ان سوالات کے جوابات تسلسل سے دیتے آئے ہیں۔ لیکن انسانی ذہن چونکہ تجسس میں مبتلا رہتا ہے، اکثر اوقات مطمئن نہیں ہوتا۔ حالانکہ قرآن خود اعلان کرتا ہے ”اور یقیناً ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان بنا دیا ہے، تو ہے کوئی جو نصیحت قبول کرے؟” (القمر:) لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنی کمزوری اور تجسس کی پیروی کی بجائے قرآن کی روشنی میں حقیقت کو قبول کریں۔


”اذن“ ایسا لفظ ہے جس کی اصل گہرائی اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی جانتے ہیں۔ تاہم قرآنی سیاق سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ”اذن” دراصل فطری قوانین کے قیام اور عملداری کا نام ہے۔ اسی تناظر میں موت کے ساتھ ”اذنِ ربی” کا مطلب ہے موت کے بنیادی قوانین
کی کامل تشکیل کا حکم۔ اسی اعتبار کو کے کر چلیں تو یہ معمہ فہم کے فریب تر ہو جائے گا۔
جس طرح ہر شے کے وجود اور فنا کے کچھ بنیادی اسباب ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ثانوی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں، اسی طرح موت بھی ایک فطری نظام کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہے۔ جس کے کچھ بنیادی اور باقی ثانوی محرکات ہیں۔ زندگی کے بنیادی محرکات میں؛ سانس، خون کی گردش، دل و دماغ کا فعال رہنا شامل ہیں جب تک یہ وسائل اور نظام صحت مند ہو تو انسان زندہ رہتا ہے، لیکن جب ان میں سے کوئی رکن مکمل فیل ہو جائے تو ”اذنِ ربی” کے تحت موت کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔بیماریاں، بخار یا زخم وغیرہ ثانوی عوامل ہیں؛ یہ انسان کو تکلیف تو دیتے ہیں مگر لازمی طور موت میں داخل نہیں کرتے۔ البتہ جب دل کی دھڑکن رک جائے، دماغ کا نظام مفلوج ہو جائے یا خون و آکسیجن کی سپلائی منقطع ہو جائے تو انسان لازمی طور پر موت کے مراحلی دائروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی قوانین ہیں جو ”اذنِ ربی” کے تحت فعال رہتے ہیں۔


تو ”موت اذن ربی” سے اب واضع ہو گیا کہ یہ نظام موت کے کھینچے ہوئے وہ دائرے ہیں جن میں جو گرا وہ بچ نہیں پائے گا۔اب دیکھتے ہیں ”وقتِ معین” سے کیا مراد ہے۔ یہ وہ لمحہ عین ہے جب انسان کا سانس رک جاتا ہے اور زندگی کی شمع بجھ جاتی ہے۔موت کے بھی اپنے مراحل ہیں، پہلے موت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ زندگی کے بنیادی نظام ٹوٹتے ہیں۔ آخر میں ایک خاص لمحہ آتا ہے جب سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ یہی لمحہ ”وقتِ معین” کہلاتا ہے۔ اسے ہم چیزیں بنانے والی فیکٹری کے سٹاک کی طرح بفر لیول سے نیچے گرنا بھی کہہ سکتے ہیں


ایک مثال کو دیکھیں۔ دو دوست نہر کے کنارے چل رہے تھے۔ ایک کے دل میں دوسرے کے لیے دیرینہ رنجِ تھا؛ اس رنج نے انتقام کی آگ بھڑکا رکھی تھی۔ بظاہر وہ ملتے تو خوش گپیوں میں مصروف رہتے، مگر اندر سے یہ جلتا جا رہا تھا۔ دوسرے کو تیرنا نہیں آتا تھا۔ چلتے چلتے اچانک پہلے دوست نے اسے دھکا دیا۔ وہ ڈوبنے لگا اُسے سانس لینے میں شدید دشواری پیش آئی یہ وہ عمل تھا جس نے موت کے آپریشنل مراحل کو حرکت دے دی تھی۔ وہ چیختا، زور لگاتا اور ہاتھ پاؤں مار کر کوئی سہارا تلاش کرتا رہا۔ اس نے کسی چیز کو پکڑ کر کنارے کے قریب آنے کی بہت کوشش کی۔ مگر کوئی مضبوط چیز یا سہارا
نہ ملا۔ تیرنے سے ناواقف ہونے کی وجہ سے وہ اپنا سر پانی سے باہر برقرار نہیں رکھ پایا۔ آکسیجن ختم ہونے لگی، حرکت ماند پڑ گئی اور جسم کا نظام تدریجی طور پر فیل ہو گیا اور بالآخر وہ ڈوب گیا۔اب غور کریں پانی میں گرنے سے ہی اس انسان پر موت کے عملی مراحل متحرک ہوئے تھے۔ وقتِ معین آ گیا لیکن کیا اسے خود موت کے کنویں میں گرنے کا شوق تھا؟ نہیں؛ اس کے دوست نے دھکا دیا تھا، اور اسی بندے کے اندر چھپی ہوئی اندھی نفرت اور بدلے کی آگ اس دھکے کے پیچھے تھی۔ اس نے بظاہر اپنے جگری دوست کو موت کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔


یہ معاملہ اخلاقی اور قانونی دونوں نقطہ نظر سے دیکھا جائے۔ دھکا دے کر کسی کو گرانا جرم ہے؛ اس عمل کی نیت، نتیجہ اور تعلقِ سبب کو الگ الگ سمجھیں سارے جرم پر مبنی ہیں۔ گرنے کے بعد موت کا عمل۔۔۔ یعنی اعضاءِ حیاتیہ کا آخری حد تک کم ہونا دراصل وہی ”نقطہ“ ہے جب زندگی کے بنیادی عناصر اپنی آخری حد کو چھو کر ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ وقت کوئی تاریخ یا سال نہیں، بلکہ وہ لمحہ ہے جب خون اور آکسیجن کی سطح مقررہ حد سے نیچے گرنے کی وجہ سے جسم کا نظام بند ہو جاتا ہے۔ جیسے کسی صنعتی پروسیس میں خام مال کا سٹاک بفر لیول سے نیچے گر جائے تو پلانٹ بند ہو جاتا ہے، ویسے ہی جسم میں آکسیجن یا خون کی مقدار ایک حد سے کم ہونے پر زندگی کا نظام رک جاتا ہے یہی وہ لمحہ ہے جسے ہم وقتِ معین کہہ سکتے ہیں۔حدیث میں بھی آتا ہے: ”بیشک روحِ قدس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی
جان اس وقت تک نہیں مرے گی جب تک اپنی مقررہ روزی پوری نہ کر لے اور اپنی مقررہ مدت پوری نہ کر لے۔“ (ترمذی، مسندِ احمد) اس بیان سے بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موت کے متعلق اشارے آکسیجن اور خون کے ذرائع (بھی رزق ہیں) کے استعمال اور ان کے خاتمے کی طرف ملتے ہیں یعنی وہ عمل جو زندگی کے نظام کو چلنے دیتا ہے جب تک اس کی مقررہ حد باقی رہے۔یقیناً یہ سب کچھ لوحِ محفوظ میں ازل سے ہی درج ہے اور اللہ کے علمِ کامل میں پہلے سے موجود ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جسے کوئی آگے یا پیچھے نہیں کر سکتا۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ موت نہ کوئی حادثہ ہے اور نہ محض اتفاق، بلکہ ایک حکمِ الٰہی ہے۔ جیسے ہی انسان ”اذنِ ربی” کے دائرے میں داخل ہوتا ہے تو قوانینِ الٰہی اپنی پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آ جاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اور سکالرز اس پہلو پر مزید تحقیق کریں تاکہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں ترجمع سے بڑھ کر تحقیقی نظر سے زیادہ واضاحت سے سمجھ اور سمجھا سکیں۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں گمراہی اور خام خیالی سے محفوظ رکھے اور قرآن و سنت کے مطابق حقیقت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔قرآنی و حدیث# مراجع: آلِ عمران: 185۔ یونس‘9۔القمر: 17۔۔۔۔۔سورۃ النحل: 61۔۔۔۔۔سورۃ الاعراف: 34۔۔۔۔۔۔” (مسند احمد، ترمذی)

تحریر:امجد علی

Shahzad Raza

Recent Posts

“معذوری، رکاوٹ نہیں”

معاشرتی انصاف اور مساوی حقوق کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد کی طرح، معذوری…

26 minutes ago

ٹرمپ کا امن منصوبہ: گریٹر اسرائیل کی طرف ایک بڑا قدم

عالمی چوہدری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پرانی مسلم دشمنی اور یہود دوستی کا…

3 hours ago

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی “زیرو ویسٹ صفائی آپریشن”

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی "زیرو…

3 hours ago

موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت اور بدسلوکی پر مقدمہ درج

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) آئیسکو کی کارروائی موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت…

3 hours ago

فلسطینی عوام اور صمود فلوٹیلا کے شرکاء سے اظہار یکجہتی، جماعت اسلامی کا احتجاجی مظاہرہ

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) فلسطینی عوام اور صمود فلوٹیلا کے شرکاء سے اظہار یکجہتی، جماعت…

3 hours ago

نیشنل پریس کلب پر اسلام آباد پولیس کی جانب سے حملے کے خلاف احتجاج ریلی نکالی گئی مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر کی آمد۔

اسلام آباد(اویس الحق سے)جڑواں شہروں کے سینکڑوں صحافیوں کی پی ایف یو جے کے صدر…

5 hours ago