منزل انہیں ملی جو شریک سفرنہ تھے

تاریخ کے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کبھی ثمر بار نہیں ہوتی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش تو کیا جاسکتاہے مگر یہ عمل وقتی ثابت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تاریخ کبھی جھوٹ میں ڈھل نہیں سکتی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی پاکستانیت اور تاریخ، تاریخ کے ساتھ مذاق ہے اور اسے سیاسی چمگارڈوں نے ایک خاص مصلحت کے تحت تیار کیا ہے آج حالت یہ ہے کہ جو جوگ یا صوبے تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے آج انہی کی اولا دیں مسنداقتدار پر جلوہ افروز ہیں اور یہ ڈرامہ پچھلے ستر سالوں سے تواتر کے ساتھ عوام کو دکھایا جا رہا ہے اور آئندہ بھی دکھایا جاتا رہے گا کہ بھوکے ننگے عوام کا مسئلہ روٹی ہے کیونکہ بھوکے کو چاند بھی روٹی نظر آتا ہے پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور سر فضل حسین خضر حیات ٹوانہ کی قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں پنجاب نے آخر دم تک پاکستان کی مخالفت کی اور کانگریس کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں کبھی کامیابی نہ ہوسکی بلکہ پنجاب میں ہمیشہ یونینسٹ پارٹی ہی سیاسی شطرنج پر راج کرتی رہی آج پنجاب پاکستان کی سیاست کا پیش رو اور رہنما بنا ہوا ہے محض آبادی کی اکثریت کی وجہ سے پنجاب پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے بلوچستان کی بات جانے دیجئے کہ وہ تو خان آف قلات کی جاگیر بھی خیبرپختونخواہ کی طرف چلتے ہیں یہ سرزمین اس شخص کی ہے جس نے پاکستان دشمنی کی مثال قائم کی اور کانگریس کی چاپلوسی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور جسے سرحدی گاندھی کے اعلیٰ وار فع خطاب سے نوازا گیا اے این پی جو درحقیقت خان عبدالغفار خان کا لگایا ہوا پودا ہے خیبر پختونخواہ پر راج کررہا ہے بعض اسلامی جماعتوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا مگر آج وہی پاکستان کی ایک کثیر آبادی پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں درباری ملاؤں نے پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اتنا دھچکا کسی ڈکٹیٹر نے نہیں پہنچایا تحریک پاکستان میں ہندوستان کے اقلیتی صوبوں نے جتنا ساتھ دیا اتنا ساتھ سندھ کے سوا کسی نے نہیں دیا جو پاکستان میں شامل ہے کلکتہ پٹنہ بہار اور دوسرے صوبوں نے جس میں مسلمان اقلیت میں تھے بھر پور ساتھ دیا اس وجہ سے نہیں کہ وہ پاکستان آنا چاہتے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ کانگریس اور ہندوکو دھول چٹانا چاہتے تھے علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد جو انہوں نے 1930ء میں دیا واضح طور پر اشارہ تھا کہ صرف وہ خطے جن میں مسلمان اکثر یت میں ہیں انہیں ایک علیحدہ ریاست کا درجہ دے دیا جائے 1936ء کے الیکشن میں قائداعظم کی مسلم لیگ کو شرمناک شکست سے دو چار ہونا پڑا مگر 1936ء میں کانگریس کی جن صوبوں میں حکومت قائم ہوئی وہاں کے مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں ظلم وستم کے پہاڑ، جبر کے طوفان، خونریزی اور قیامت خیز شرانگیزیاں کچھ اس طرح سے کانگریس نے روا رکھیں کہ مسلمانوں نے تہیہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ بننے کی ذہنیت کا مقابلہ کر یں گے اس ظلم و ستم پر رپورٹیں شائع ہوئیں غرضیکہ 1940ء میں قرار داد لاہور پاس ہوئی جس میں کم وبیش خطبہ آلٰہ آباد کو پاس دہرایا گیا قصہ مختصر کہ بھارتی اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے دامے درمے قدمے سخنے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اپنے خون سے تحریک پاکستان کو سینچا و گرنہ مسلمانوں کے لئے پاکستان کا حصول ایک صدی تک ممکن نہ تھا لیکن پاکستان میں تاریخ کو جتنا مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے شاید ہی کسی اور ملک میں ایسا کیا گیا ہو اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ منزل ایسے لوگوں کو ملی جو کبھی اس سفر میں
شریک ہی نہ تھے آج پاکستان کی
زبوں حالی پر دل خون کے آنسو روتا ہے پاکستان کا نوجوان تباہ ہے برباد حال اور شکستہ دل ہے وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر کر نہیں سکتا معاش کے چکر میں اس طرح الجھا ہے جیسا کولہو کا بیل، چکر پر چکر کھائے جا رہا ہے مگر سفر ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا پاکستان معرض وجود میں آیا تو پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے یہ وہی لیاقت علی خان ہیں جو ایک نواب گھرانا سے تعلق رکھتے تھے بڑے نازو نعم میں پلے مگر اپنی ہر چیز اپنے ملک پاکستان پر قربان کر دی جان سے زیادہ کونسی چیز عزیز ہوتی ہے وہ بھی اس ملک پر وار دی اور جب شہادت کا جام نوش کیا تو اچکن کے نیچے ایک پھٹی پرانی بنیان وزیر اعظم پہنے ہوئے تھے پھر جب اس کا موازنہ دیگر اکابرین ملت جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو تحریک پاکستان کا حصہ تھے اور بہت سے وہ لوگ بھی تھے جو نہ تو اس تحریک میں شامل تھے بلکہ اس تحریک اور اس کے لیڈران کی کردار کشی کی مہم میں پیش پیش تھے مگر قیام پاکستان کے بعد ان کے وسائل کس طرح بڑھے ان کے کروفر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ملک شاید انہی کی قربانیوں کا مرہون منت ہے تحریک پاکستان کی کامبابی اور قیام پاکستان کی جدوجہد اتنی لازوال قربانیوں کی مرہوں منت ہے کہ صرف ان قربانیوں، شہادتوں ماؤں بہنوں بیٹیوں کی تارتار عصمتیں، بے شمار لوگوں کا جان سے جانا، اپنے گھر بار اور کاروبار چھوڑنا کوئی آسان کام نہ تھا یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ماسوائے چندشخصیات کے اکثر و بیشتر مذہبی رہنماؤں اور مذہبی جماعتوں نے وقت کی نبض کو پہچاننے سے انکار کر دیا اور کامیابی والی ٹرین مس کر دی بہت سے ایسے چہرے جو قیام پاکستان کے بعد وارد ہوئے انہوں نے اس ملک کو بے دردی سے لُوٹا اتنے مافیاز وجود میں آئے بہت معمولی بیک گراؤنڈ سے لوگ ارب پتی بن گئے ملک قرضوں کے بوجھ تلے دیتا چلا گیا جوں جوں ملک مقروض ہوتا گیا چند طاقتور خاندان امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے مگر کسی کو بھی پاکستان کی تباہی کا خیال نہ آیا یہ خیال ابھی کیسے آسکتا تھا کہ سبھی اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف تھے اگر اس ملک کی سیاست کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو شاید صرف قائداعظم محمد علی جناح کی ذات یا ان کے قریبی رفقا ء لیاقت علی خان یا ان جیسے چند دیگر ہی ہر قسم کے الزامات سے بری الذمہ نظر آئیں گے ورنہ ان کے بعد جو قحط الرجال میدان سیاست میں نظر آیا کچھ نہ پوچھیئے بنیادی طور پر ہمارے ہاں اصولوں کی سیاست اور صاف ستھری حکمرانی کا تصور قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قصہ یارینہ بن گیا پھر شومئی قسمت دیکھئے کہ قائد کی رحلت کے بعد ہم دوسرے قائد کی تلاش میں پچھتر سال کا سفر طے کر چکے ہیں مگر کوئی بھی قائدکا ہمسر نہ ملا قائداعظم بننے کی کوششیں تو ہوئیں مگر جس کردار امانت دیانت اور بصیرت کی ضرورت تھی وہ نا امید ہی رہا ان لوگوں نے بھی اقتدار و اختیار کے مزے لُوٹے جن کا تحریک پاکستان، بانی پاکستان اور نظریہ پاکستان سے دور کا بھی تعلق نہ تھا اور یوں ہم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھئے۔منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں