منتھلیاں بند،تجاوزات مافیا پریشان

قارئین کرام! پاکستان کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں، آپکو تجاوزات کی بھرمار نظر آئے گی، زیرو ٹالرنس پالیسی کہیں نہیں ہے اسی طرح شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین گوجرخان تحصیل کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں آپکو قبضہ مافیا، تجاوز مافیا نظر آئے گا، گوجرخان شہر کی تو بات ہی نہ کریں، یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، انجمن تاجران گوجرخان کے صدر و دیگر عہدیداران اسسٹنٹ کمشنر اور چیف آفیسر سے معاملات طے کر کے جاتے ہیں اور تاجر ان کی بات ماننے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔اگر گوجرخان کے شہریوں کی یادداشت اچھی ہو تو میں یاد کراتا چلوں کہ نازیہ پروین سدھن کے بعد حرا رضوان وہ پہلی اسسٹنٹ کمشنر تھیں جنہوں نے تجاوزات کیخلاف سخت ایکشن لیا تھا لیکن وہ ایکشن بھی چند دن ہی رہا تھا اور اس کے بعد انکی تعیناتی تقریباً ایک سال تک رہی مگر تجاوزات برقرار رہیں، اس وقت بازار میں ایک آواز گونجتی تھی کہ ”آئی اے میڈم” اور پھر سب کی دوڑیں لگ جاتی تھیں۔ اس وقت تعینات چیف آفیسر عمر شجاع کے تقریباً سبھی تاجر رہنماوں کے ساتھ اچھے مراسم تھے تو وہ ریلیف دے دیا کرتے تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور نے بھی تجاوزات کے حوالے سے کام کیا لیکن موجودہ اسسٹنٹ کمشنر اور چیف آفیسر بلدیہ نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جس پر تجاوز مافیا کی چیخیں آسمان تک پہنچ چکی ہیں، بازار کُھلے کُھلے نظر آ رہے ہیں، جہاں بھی تجاوزات نظر آتی ہے وہاں عملہ پہنچ جاتا ہے، بھاری جرمانے اور دکانیں سیل کی جا رہی ہیں اور اس آپریشن کی اسسٹنٹ کمشنر مہر غلام عباس ہرل اور چیف آفیسر تنویر عباس گجر نگرانی کر رہے ہیں۔یہاں یہ سوال بہت ہے کہ بازاروں میں تجاوزات کرنے میں ملوث کون ہے؟؟ جس کا جواب بھی ملاحظہ کریں، گوجرخان شہر میں تجاوزات مافیا موجود ہے، جنکے پلازے ہیں، دکانات ہیں، مارکیٹیں ہیں اور کئی ایک کھوکھے بھی ہیں، اس مافیا نے اپنی دکانوں پلازوں اور کھوکھوں کے باہر بیچ بازار ٹھیہ لگانے کی قیمت مقرر کر رکھی ہے اور یہ جس کو ٹھیہ لگانے کی اجازت مرحمت فرناتے ہیں اس کو یہ گارنٹی دیتے ہیں کہ بلدیہ جانے اور ہم جانیں، ہم بلدیہ کو حصہ دیتے ہیں۔۔ اب انکی بات یونہی پھینکنے والی بھی نہیں ہے بلاشبہ سابقہ اور موجودہ دور میں بھی بلدیہ میں ایسے ملازمین موجود ہیں جو شہر سے مبینہ طور پر بھتہ لیتے ہیں، انہوں نے گاڑیاں خریدیں، بنگلے اور کوٹھیاں بنا لیں پلاٹ خرید لئے مگر ان کیخلاف آج تک کوئی انکوائری نہ ہوئی کہ تنخواہ میں مشکل سے گزارا ہوتا ہے تمہارے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا کہ تم نے گاڑی لے لی اور بنگلے کوٹھیاں پلاٹ خرید لئے۔۔ سابق اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور نے انہی الزامات پر اینٹی تجاوزات کمیٹی بلدیہ سے کچھ ملازمین ہٹا دیئے تھے۔۔ اسی طرح کچھ نام نہاد عوامی لیڈر اور شرفائے گوجرخان بلدیہ ملازمین سے اس مد میں رقم وصولتے رہے اور ان کا گزارا اسی طرح ہوتا رہا ہے اور وہ بلدیہ ملازمین کو ہر دور میں تحفظ فراہم کرتے آ رہے ہیں۔اہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ زیرو ٹالرنس پالیسی شروع کیسے ہوئی؟رمضان المبارک کے ابتدائی ایام میں کمشنر راولپنڈی ڈویژن نے گوجرخان کا اچانک دورہ کیا تو تجاوزات دیکھ کر برہم ہوئے، انکے کانوں میں آواز پڑی کہ چیف آفیسر تجاوزات کی مد میں منتھلی لیتا ہے، جس پر کمشنر راولپنڈی نے اس الزام کی انکوائری کرنے کا بھی کہا، اس الزام کے بعد چیف آفیسر کا پارہ ہائی ہو گیا کیونکہ ان کے بقول یہ الزام محض تجاوزات کیخلاف کارروائی نہ کرنے دینے کیلیے لگایا گیا ہے کہ شاید اس الزام سے چیف آفیسر کا تبادلہ ہو جائے یا وہ دبک کر دفتر بیٹھ جائے لیکن یہاں کام اُلٹا پڑ گیا، اسسٹنٹ کمشنر نے میٹنگ بلا کر تجاوزات کیخلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا آرڈر کر دیا، جس کے بعد اب تک روزانہ کی بنیاد پر تجاوزات کیخلاف آپریشن ہو رہا ہے، بازار کُھلے کُھلے ہیں، ریڑھی بازار کا خاتمہ ہو چکا ہے، سامان دکانوں کے اندر رکھا جا رہا ہے، اس صورتحال میں جب تجاوزات مافیا کی منتھلیاں بند ہوئی ہیں تو وہ اسسٹنٹ کمشنر کیخلاف بیان بازی پر اُتر آئے ہیں اور تبادلے کا مطالبہ کر دیا ہے جو کہ سراسر بھونڈا مطالبہ ہے، میری ناقص رائے کے مطابق شاہراہ عام کو بلاک کر کے کاروبار کرنا شرعی طور پر بھی درست نہیں، پھر وہاں خواتین سے بدتمیزی کے واقعات، چوری کے واقعات رونما ہوتے ہیں جس کی کسی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔اب باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ محض تجاوزات کیخلاف بلاتفریق آپریشن کرنے کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنر کے تبادلے کیلیے ہاتھ پاوں مارے جا رہے ہیں، تقرریاں تبادلے سروس کا حصہ ہوتے ہیں لیکن گوجرخان میں مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ یہ کسی کام کرنے والے کو ٹِکنے نہیں دیتے، اب دیکھتے ہیں کہ موجودہ اسسٹنٹ کمشنر اور چیف آفیسر مزید کتنے دن یہاں مقیم رہتے ہیں۔۔۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں