ملک ظفرا قبال جد ا ہوگئے/عبدالجبار چوہدری

ملک ظفر اقبال سے میرا تعارف پنڈی پوسٹ کے اجراء کے موقع پر ہوا پنڈی پوسٹ کو خواب سے حقیقت میں بدلنے کے لئے ملک ظفر اقبال جیسی اعلی ظرف مخلص اور منسار شخصیت کا کردار بھولنے والا نہیں ہے جب بھی پنڈی پوسٹ کی ٹیم کا اگٹھ ہوتا تو ملک ظفر اقبال اور جاوید اقبال بٹ مرحوم کی نوک جھوک اور ظرافت سے بھر پور گفتگو ہم سب کو لوٹ پوٹ کر دیتی

ملک ظفر اقبال نے کالم نگار کی حیثیت سے پنڈی پوسٹ میں ہی کام شروع کیا آپ کی تحریریں انتہائی اعلی معیار اور سبق آموز ہوتیں علاقائی مسائل سے لے کر ملکی سطح کے مسائل تک ہر ایک موضوع پر قلم اٹھایا اور ان کی تحریریں پنڈی پوسٹ کے لئے اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہیں

ملک ظفر اقبال کی قیادت میں ہمیں ایک دفعہ مری کی سیر کا موقع نصیب ہوا روات سے مری تک کا سفر انتہائی ہنسی خوشی سے گزرا ہوٹل پر کھانے کے لئے رکے تو نگاہوں کا مرکز ملک ظفر اقبال ہی ٹھہرے ہمارے ساتھی محمد ابراہیم نے ملک ظفر اقبال کے ساتھ ایسے ایسے فوٹو بنائے جو آج بھی ہماری گیلری کی خوبصورتی میں اضافہ کئے ہوئے ہیں واپسی پر جب روات ٹی چوک میں چائے کے کپ کے ساتھ ہم سب جدا ہوئے تو ملک ظفر اقبال نے ہر ایک کو یوں الوداع کیا جیسے ہم صدیوں کے لئے بچھڑ رہے ہوں

ہمارے لئے یادگار لمحہ اور پنڈی پوسٹ کے لئے تاریخی وقت یعنی پہلی سالگرہ کا وقت آن پہنچاملک ظفر اقبال صاحب ایک بڑے کیک کے ساتھ تشریف لائے اپنے مبارک ہاتھوں سے کیک کاٹا اور ہم سب کو کھانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے دیا ملک ظفر اقبال اس وقت ہم سے جدا ہوتے وقت گویا یوں کہتے گئے اساں تاں توڑ نبھا چھوڑی اگے جانے یار نہ جانے اس کے بعد ملک ظفر اقبال صاحب نے ادارتی صفحہ کو مکمل زینت بحشنا شروع کردی اور اکثراوقات میری اور ملک ظفر اقبال کی تحریریں اگھٹی ہوجاتی ملک ظفر اقبال نے کئی مرتبہ فون کر کے کسی تحریریں تحسین کی اور ہمارے حوصلے بڑھائے ملک ظفراقبال کی طبیعت زرا خراب رہنے لگی مگر آپ کسی کو محسوس نہیں ہونے دیتے حاضری کم ہوتی جارہی تھی بعض خاندانی اموات اور گھریلوں مصروفیات نے ملک ظفراقبال جیسی شخصیت کو گھیرنا شروع کیا بلند حوصلہ اور انتہائی زیانیت ومہارت سے مقابلہ کیا اسی طرح ہمارے تعلقات کا تیسرا سال شروع ہوا ایک دن چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوھدری کا فون آیا کہ ملک ظفر اقبال ملٹری ہسپتال میں داخل ہیں ہم بھاگتے وہاں پہنچے ملک ظفراقبال کینٹین کے سامنے ہمارا انتظار کر رہے تھے تو حیریت دریافت کی Biopsy ٹیسٹ کا بتایا اور تشخص کے لئے لیبارٹری بھجوا دیا گیا بس تشخص کے بعد پتہ چلا کہ پھیپھڑے سرطان کا شکار ہو چکے ہیں

مگر ملک ظفراقبال یہی کہتے کہ میں بلکل ٹھیک ہوں بس تھوڑے سے علاج کے بعد بہتر ہو جاوٓں گا واقعی علاج سے کچھ افاقہ ہوا اور ملک ظفراقبال چلتے پھرتے اور معمولات زندگی میں حصہ لینے لگے سرطان جیسا مرض کم کہاں ہوتاہے پڑھتا رہتا ہیں بالآخر ملک ظفراقبال سی ایم ایچ کی ONWLOGY وارڈمیں داخل ہو گئے بس کھانسی رکنے کا نام نہیں لیتی ملک ظفراقبال انتہائی بڑی جامت کے مالک تھے سرطان نے آپ کے پھیپڑوں کو کام کے قابل نہیں چھوڑاور ہم سے جدا ہونے کے لئے رب کائنات نے اپنا مبارک مہینہ رمضان ملک ظفراقبال صاحب کو نصیب کیااور بے شک جس آدمی نے ہنستے کھیلتے وقت گزارا ہو اور انتہائی اخلاص سے ہر ایک کے کام آتے ہوں ت

و مالک کائنات غفوررحیم نے بھی بخشش کے اسباب پیدا کئے اور لحدمیں اترنے کے لئے رحمتوں بھرا عشرہ نصیب ہوا ملک ظفراقبال نے بھر پور زندگی گزاری فوج میں سروس کے بعد ریٹائرڈ ہوئے ٹرانسپورٹ کے کام سے وابستہ ہوئے اور پھر صحافت کے میدان مین قدم رکھا سیاست کے کھلاڑی بھی بنے اور کونسلر کا انتخاب لڑ کر کامیاب ہوئے اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں