وطن عزیز کوآزادی کی فضا میں سانس لیتے ہوئے آٹھ دہائیاں ہونے کو ہیں لیکن بدقسمتی سے شروع کے چند سالوں کو چھوڑ کر کوئی ایسی قیادت میسر نہ آسکی جو وطن عزیز یا اسکے عوام کی خیر خواہ ہو وطن عزیز میں جب بھی کوئی بڑا ایشو سامنے آیا حکومت نے اسکی توجہ کسی اور طرف مبذول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک نیاء شوشا لانچ کردیا جس سے عوام کی توجہ اصل منظر سے ہٹ جاتی ہے

گزشتہ کئی سالوں سے ملک سے غیر قانونی افغانیوں کی واپسی کا واویلا شروع ہوا لیکن پھر یہ حکومت کی عدم دلچسپی یابھائی چارے کے نام پر خاموشی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اب ایک بار پھر 31مارچ کی ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے اور حکومتی ایوانوں میں یہ بازگشت جاری ہے کہ اب غیر قانونی افغانیوں سے کسی قسم کی رعائیت نہ ہوگی ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کے عفریت نے سراٹھا لیا ہے تو حکومت سمیت سیکورٹی اداروں کو ہوش آگیا ہے کہ یہ سارا کیا دھرا ان غیر قانونی طور پر رہائش پزیر افغانیوں کی وجہ سے ہورہا ہے
تو اب ساری توجہ غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں اور افغانیوں کے خلاف مرکوز ہوگئی ہے اور31 مارچ 2025 کے بعد سخت ایکشن کا فیصلہ کر لیاگیا ہے حکومت نے اس بات پر کمر کس لی ہے کہ مطلوبہ ڈیڈ لائن کے بعد وطن عزیز میں بسنے والے غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں کی جائے گی غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر کی پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن 31 مارچ ہے
،مقررہ تاریخ کے بعد مقیم غیر قانونی، غیر ملکیوں اور افغان شہریوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی ایسے افراد کو گرفتار کر کے ملک بدر کیا جائے گا‘پاکستان میں مقیم تمام افغان شہریوں کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ باعزت طور پر واپس چلے جائیں،پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی کے واقعات میں افغان شہریوں کے براہ راست ملوث ہونے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے 4 مارچ 2025ء کو بنوں کینٹ خود کش حملوں میں فتنہ الخوراج کے 16 دہشتگرد جہنم واصل کئے گئے تھے ان ہلاک خوارجین میں زیادہ تعداد میں شامل افغان دہشتگرد بھی شامل تھے اورحملے کی منصوبہ سازی افغان سرزمین سے ملتی تھی جس پروزارت داخلہ کی ہدایات کرتے ہوئے غیر قانونی مقیم غیر ملکی اور افغان سٹیزنز کارڈ ہولڈر 31 مارچ تک رضاکارانہ پاکستان چھوڑنے کا حکم جاری کردیا یکم اپریل سے تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی ملک بدری کا عمل شروع کردیا جائے گا
اب دیکھتے ہیں کہ حکومت اس میں کتنی سنجیدہ ہے یا اس پر عملدرآمد کرواتی ہے یوں تو وطن عزیز میں ہونے والے ہر غیر قانونی کام میں افغانیوں کی شمولیت روز اول سے ہے منشیات فروشی سے لیکر جسم فروشی کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے جرائم میں ملوث ہونا یہ افغانیوں کا وطیرہ رہا ہے انکی بڑی تعداد سوشل میڈیا پر اسکا برملا اظہار کرتی نظر آتی ہے لیکن قانون اندھا ہے اس لیے ہمارے اداروں کو انکی کوئی حرکت نظر نہیں آتی افغانیوں نے اب تو اتنے بڑے بڑے گینگز بنا لیے ہیں جو زمینوں پر قبضے سمیت اغوا جیسے معاملات میں دھڑلے سے ملوث ہیں ادارے اگر ملک سے مخلص ہیں
تو صرف چونترہ اور چکری سے لیکر فتح جنگ کا ہی آپریشن کرلیں انکو ہر سوسائٹی میں ایک مکمل اور بڑا افغانی گینگ نظر آئیگا جسکی پشت پناہی ہمارے نام نہاد منتخب ممبران اسمبلی کررہے ہونگے ایسے میں کام کیسے چلے گا گزشتہ دو دنوں میں چکوال اور گوجرخان میں ان افغانیوں نے آزادانہ طور پر شہریوں کو انکی فیملیز کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا لیکن ہمارااندھا قانون ڈھنگ ٹپاو پالیسی کا شکار نظر آتا ہے میری ایک سینئر پولیس افسر سے اس حوالہ سے بات انہوں نے جواب دیکر شاک کردیا کہنے لگے انکا کوئی اتہ پتہ نہیں یہ۔یہاں پر واردات کرکے کسی اور شہر میں آباد ہوجاتے ہیں
اس لیے ہم ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے آپ پوش سوسائٹیوں میں ان کے کالے دھن کی انویسٹمنٹ دیکھ لیں لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں اگر ہم ذرا گزشتہ کچھ سالوں پر نظر ڈالیں تو حکومت نے ستمبر 2023میں غیر قانونی افغانیوں کی واپسی کا اعلان کیا گیا تھا اوردستیاب اعدادو شمار کے مطابق 15 دسمبر 2024 تک تقریبا 7 لاکھ 95 ہزار 607 مہاجرین اپنے ملک واپس جا چکے تھے یہ اعداد شمار حتمی اس لیے نہیں کہ ہمارے افسران کو فیلڈ کے بجائے دفاتر میں بیٹھ کر کام کرنے کی عادت ہے سو اس میں بھی ڈندی ماری گئی ہوگی سال 2024 کے مئی اور جون میں پاکستان چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیاتھا دومہینوں میں تقریباً 38 ہزار اور مجموعی طور پر 76 ہزار غیرقانونی افغانستان کو واپس گئے جبکہ جولائی 2024 میں 36 ہزاراگست میں 29 ہزار، ستمبر میں 23 ہزار اور اکتوبر میں 24 ہزار افغان واپس گئے
جبکہ نومبر 2024 میں ان کی تعداد قدرے بڑھ کر 25,400 تک پہنچ گئی تھی11 نومبر 2024 کو پاکستان کی قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے ملک میں مقیم تارکین وطن کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو ملکی شہریت دیے جانے کے قانون میں ترمیم بھی منظور کی جس کے بعد پاکستان میں رہنے والے بہت سے افغان شہریوں کے بچوں کے لیے یہ سہولت ختم ہو گئی ہے کمیٹی نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے صرف اسی بچے کو شہریت مل سکے گی جس کے والدین میں سے کم از کم ایک کے پاس پاکستانی شہریت ہو گی۔اب سوال یہ ہے
کہ کیا موجودہ حکومت بڑی تعداد میں مقیم ان افغانیوں کو ملک سے نکالنے میں کامیاب ہوگی حکومت اور سیکورٹی اداروں کا اصل امتحان شروع ہوگا عید کے بعد اگر حکومت اس مشن میں کامیاب ہوجاتی ہے تو امید ہے کہ وطن عزیز میں معشیت کی بہتری کیساتھ ساتھ سیکورٹی جیسے معاملات بھی بہتر ہونگے اور ملک امن کا گہوارا بن جائیگا لیکن اس کے لیے بلا تفریق آپریشن کرنا ہوگا بصورت دیگر یہ ایک ایسی ہڈی بنے گی جو نہ نگلی جا سکے نہ اگلی جاسکے اللہ میرے وطن کو سلامت رکھے۔