ملک بحرانوں کا شکار

ایم اے صبور ملک
دنیا بھر کی حکومتیں اپنے شہروں کو سہولتیں بہم پہنچانے اور ان کی زندگیوں کو خوشحال اور سہل کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہیں لیکن ملک پاکستان ایک منفرد ملک ہے جہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن جو ہیں ان کی فراہمی بھی یقینی نہیں رہی 18فروری2008ء کو طلوع ہوتاسورج اس بات کی امید تھا کہ قوم جس طرح مشرف کے دئیے ہوئے عذاب میں بند ہے اس کا مداوا ہو گا لیکن زمام اقتدار پی پی پی خصوصاً زرداری جیسے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر آتے ہی عوامی خواب میں ملتے چلے گئے آغاز عدلیہ بحالی لے وعدوں سے ہو ا اور نوبت رسید کے مصداق رینٹل پاور سے ہوتی ہوئی میمو گیٹ میں داخل ہوئی اور وہاں سے نکلی تو سوئس حکام کو خط کی تحریر تک جا پہنچی اور رہی سہی کسر بجلی اور گیس کے بحران نے لے لی حیرت اس بات پر ہے کہ ملکہ پیداوار ہونے کی باوجود گیس نایاب اور مہنگی ہے رہی کسر تو وہ بجلی کی 20گھنٹے لوڈ شیڈ نگ کا اعزاز بھی پوری دینا بھی ہمارے حصے میں ہی آنا ہے بات گیس کی کریں تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ہفتے میں صرف چند گھنٹے چولہا جل پاتا ہے باقی دن رہے نام اللہ کا ۔ سردی کے اس موسم میں شہری ہیٹر جلانے کے عادی ہوتے ہیں تو دوسری طرف گیس کے انتظار میں اکثر چولہا کھلا چوڑ دیا جاتا ہے جو اکثر حادثات کا باعث بنتا ہے اب کلرسیداں کو ہی لیجئے جہاں گزشتہ ہفتے گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث آٹھویں جماعت کی مخصوص طالبہ قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی اور پیچھے مجبور والدین کو ساری زندگی کے لیے روک دی گئی قصور وار کون والدین ،معاشرہ یا ارباب اختیا ر یاپھر سوئی گیس حکام جو محض چند ٹکوں کے عوض سی این جی والوں کو گیس کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں اور گھریلوں صارفین کو جمعرا ت سے ہفتہ بھی گیس کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے شہری ساری رات گیس کے انتظار میں گزار دیتے ہیں یا پھر چولہا اس آس پر کھلا چوڑ دیا جاتا ہے کہ کبھی تو سوئی گیس والوں کو گھریلو غریب صارفین پر رحم آہی جائے لیکن گیس آنے کی رحمت کی زحمت اور جان لیوا ثابت ہوئی ہے رہے کلرسیداں کے ارباب اختیار تو وہ اس تمام صورتحال سے با خبر ہونے کے باوجود کبوتر کی طرح ریت میں سر دئیے سو رہے ہیں ظلم تو یہ کہ مہینے میں صرف 10سے12 دن تک سپلائی کی جانے والی سوئی گیس کا بل ماہانہ ب بنیادوں پروصول کیا جاتاہے

اپنا تبصرہ بھیجیں